Sura Al-Ikhlas
Sura Al-Ikhlas (Arabic: سورة الإخلاص, The purity) "Or" Sura At-Tawhid (سورة التوحيد, Monotheism) is the 112th Sura of the Qur'an in 30th part of the Quran with 4 ayat. It is Meccan sura.
سورہ الاخلاص (الاخلاص کے معنی خالص) یا سورة التوحيد (التوحيد کے معنی توحید) قرآن مجید کی 112 ویں سورت جس میں 4 آیات ہیں۔ یہ 30 ویں پارہ میں ماجود مکی سورت ہے
Name
Al-Ikhlas is not merely the name of this Surah but also the title of its contents, for it deals exclusively with Tauhid. The other Surahs of the Quran generally have been designated after a word occurring in them, but in this Surah the word Ikhlas has occurred nowhere. It has been given this name in view of its meaning and subject matter. Whoever understands it and believes in its teaching, will get rid of shirk (polytheism) completely.
نام
الاِخلَاص اس سورہ کا محض نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے کیوں کہ اس میں خالص توحید بیان کی گئ ہے۔ قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں تو بالعموم کسی دوسرے لفظ کو اُن کا نام قرار دیا گیا ہے جو ان میں وارد ہوا ہو، لیکن اس سورہ میں لفظ اِخلاص کہیں وارد نہیں ہوا ہے۔ اس کو یہ نام اس کے معنی کے لحاظ سے دیا گیا ہے۔ جو شخص بھی اس کو سمجھ کر اِس کی تعلیم پر ایمان لے آۓ گا، وہ شرک سے خلاصی پا جائے گا۔
Period of Revelation
Whether it is a Makki or a Madani Surah is disputed, and the difference of opinion has been caused by the traditions which have been related concerning the occasion of its revelation. We give them below ad seriatim:
Thus, the fact is that this Surah is Makki, rather in view of its subject matter a Surah revealed in the earliest period at Makkah, when detailed verses of the Quran dealing with the essence and attributes of Allah Almighty had not yet been revealed, and the people hearing, the Holy Prophet's invitation to Allah, wanted to know what was his Lord like to whose worship and service he was calling them. Another proof of this Surah's being one of the earliest Surahs to be revealed is that when in Makkah Umayyah bin Khalaf, the master of Hadrat Bilal, made him lie down on burning sand and placed a heavy stone on his chest, Bilal used to cry "Ahad, Ahad!" This word was derived from this very Surah.
- Hadrat Abdullah Bin Masud has reported that the Quraish said to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) : "Tell us of the ancestry of your Lord." Thereupon this Surah was sent down. (Tabarani).
- Abul Aliyah has related on the authority of Hadrat Ubayy Bin Kab that the polytheists said to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him): Tell us of your Lord's ancestry." Thereupon Allah sent down this Surah. (Musnad Ahmad, Ibn Abi Harim, Ibn Jarir, Tirmidhi, Bukhari in At-Tarikh, Ibn Al-Mundhir, Hakim, Baihaqi). Tirmidhi has related a tradition on the same theme from Abul Aliyah, which does not contain any reference to Hadrat Ubayy Bin Kab, and has declared it to be more authentic.
- Hadrat Jabir Bin Abdullah has stated that a bedouin (According to other traditions, some people) said to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) : "Tell us of your Lord's ancestry." Thereupon Allah sent down this Surah. (Abu Yala, Ibn Jarir, Ibn Al-Mundhir, Tabarani in Al-Ausat, Baihaqi, Abu Nuaim in Al-Hilyah).
- Ikrimah has related a tradition form Ibn Abbas, saying that a group of the Jews, including Kab Bin Ashraf, Huyayy Bin Akhtab and other, came before the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) and said: "O Muhammad (Peace Be Upon Him), tell us of the attributes of your Lord, Who has sent you as a Prophet."Thereupon Allah sent down this Surah. (Ibn Abi Hatim, Ibn Adi, Baihaqi in Al-Asma was-Sifat).
- Hadrat Anas has stated that some Jews of Khaiber came before the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) and they said, "O Abul Qasim, Allah created the angels from light, Adam from rotten clay, Iblis from the flame of fire, the sky from smoke, and the earth from the foam of water. Now tell us about your Lord (of what He is made)."The Holy Prophet (Peace Be Upon Him) did not give any reply to this question. Then Gabriel came and he said: "O Muhammad, say to them, Huwa Allahu ahad."
- Amir Bin At-Tufail said to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him): "O Muhammad, what do you call us to? " The Holy Prophet replied: "To Allah." Amir said: "Then, tell us of what He is made, whether of gold, silver, or iron?" Thereupon this surah was sent down.
- Dahhak, Qatadah and Muqatil have stated that some Jewish rabbis came before the Holy Prophet (Peace Be Upon Him), and they said: "O Muhammad, tell us what is your Lord like, so that we may believe in you. Allah in the Torah has sent down his description. Kindly tell us of what He is made, what is His sex, whether He is made of gold, copper, brass, iron, or silver, and whether He eats and drinks. Also tell us from whom He, has inherited the world, and who will inherit it after Him." Thereupon Allah sent down this Surah.
- Ibn Abbas has reported that a deputation of the Christians of Najran along with seven priests visited the Holy Prophet (Peace Be Upon Him), and they said: "O Muhammad, tell us what is your Lord like and of what substance He is made." The Holy Prophet (Peace Be Upon Him) replied: "My Lord is not made from any substance: He is unique and exalted above everything." Thereupon Allah sent down this Surah.
Thus, the fact is that this Surah is Makki, rather in view of its subject matter a Surah revealed in the earliest period at Makkah, when detailed verses of the Quran dealing with the essence and attributes of Allah Almighty had not yet been revealed, and the people hearing, the Holy Prophet's invitation to Allah, wanted to know what was his Lord like to whose worship and service he was calling them. Another proof of this Surah's being one of the earliest Surahs to be revealed is that when in Makkah Umayyah bin Khalaf, the master of Hadrat Bilal, made him lie down on burning sand and placed a heavy stone on his chest, Bilal used to cry "Ahad, Ahad!" This word was derived from this very Surah.
زمانۂ نزول
اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔، اور یہ اختلاف اُن روایات کی بنا پر ہے جو اس کے سببِ نزول کے بارے میں منقول ہوئی ہیں۔ ہم ان کو سلسلہ وار درج کرتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی (طَبرانی)۔
ابو العالیہ نے حضرت اُبَی بن کعبؓ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی (مسند احمد، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ترمذی، بخاری فی التاریخ، ابن المنذر، حاکم، بیہقی)۔ ترمذی نے اسی مضمون کی ایک روایت ابو العالیہ سے نقل کی ہے جس میں حضرت اُبی بن کعبؓ کا حوالہ نہیں ہے اور اسے صحیح تر کہا ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہؓ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی نے، اور بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابو یعلیٰ، ابن جریر، ابن المنذر، طَبرانی فی الاوسط، بیہقی، ابو نعیم فی الحلیہ)۔
عکرمہ نے ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہودیوں کا گروہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں کعب بن اشرف اور حُبی بن اخطب وغیرہ شامل تھے، اور انہوں نے کہا ’اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہمیں بتائیے کہ آپ کا وہ رب کیسا ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے۔‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابن ابی حاتم، ابن عدی، بیہقی فی الاسماء و الصفات)۔
۔حضرت انس کا بیان ہے کہ خیبر کے کچھ یہودی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا ’اے ابو القاسمؐ! اللہ نے ملائکہ کو نورِ حجاب سے، آدم کو مٹی کے سڑے ہوۓ گارے سے، ابلیس کو آگ کے شعلے ےسے، آسمان کو دھوئیں سے اور زمین کو پانی کے جھاگ سے بنایا، اب ہمیں اپنے رب کے متعلق بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر جبرئیلؑ آئے اور انہوں نے کہا ’ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ان سے کہئے کہ ہو اللہ احد۔
عامر بن امطفیل نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا ‘ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلاتے ہیں؟‘۔ آپؐ نے فرمایا ’اللہ کی طرف‘۔ عامر نے کہا ’اچھا تو اس کی کیفیت مجھے بتائیے۔ وہ سونے سے بنا ہوا ہے یا چاندی سے یا لوہے سے؟‘ اس پر یہ سورہ نازل ہوئی۔
ضحاک اور قتادہ اور مقاتل کا بیان ہے کہ یہودیوں کے کچھ علماء حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آۓ اور انہوں نے کہا ’اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اپنے رب کی کیفیت ہمیں بتائیے، شاید کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آئیں۔ اللہ نے اپنی صفت تورات میں نازل کی ہے، آپ بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟، کس جنس سے ہے؟ سونے سے بنا ہے یا تانبے سے یا پیتل سے یا لوہے سے یا چاندی سے؟ اور کیا وہ کھاتا اور پیتا ہے؟ اور کس سے اس نے دنیا وراثت میں پائی ہے، اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہو گا؟‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سات پادریوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا ’ہمیں بتائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رب کیسا ہے؟ کس چیز سے بنا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، ’میرا رب کسی چیز سے نہیں بنا ہے، وہ تمام اشیاء سے جدا ہے‘ ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف لوگوں نے رسول الہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس معبود کی ماہیت اور کیفیت دریافت کی تھی جس کی بندگی و عبادت کی طرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ اور ہر موقع پر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو جواب میں یہی سورت نازل ہوئی۔ اس کے بعد مدینہ طیبہ میں یہودیوں نے کبھی عیسائیوں نے اور کبھی عرب کے دوسرے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی نوعیت کے سوالات کئے، اور ہر مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوا کہ جواب میں یہی سورت آپ ان کو سنا دیں۔ ان روایات میں سے ہر ایک میں یہ جو کہا گیا ہے کہ اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی تھی۔ اس سے کسی کو یہ خیال نہ ہونا چاہئے کہ یہ سب روایتیں باہم متضاد ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں اگر پہلے سے کوئی آیت یا کوئی سورہ نازل شدہ ہوتی تھی، تو بعد میں جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے وہی مسئلہ پیش کیا جاتا، اللہ کی طرف سے ہدایت آ جاتی تھی کہ اس کا جواب فلاں آیت یا سورے میں ہے یا اس کے جواب میں وہ آیت یا سورہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دی جائے۔ احادیث کے راوی اس چیز کو یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ جب فلاں معاملہ پیش آیا یا فلاں سوال کیا گیا، تو یہ آیت یا سورہ نازل ہوئی۔ اس کو تکرارِ نزول سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک آیت یا سورہ کا کئی مرتبہ نازل ہونا۔ پس صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ در اصل مکی ہے، بلکہ اس کے مضمون پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکے کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بیان میں قرآن کی مفصل آیات ابھی نازل نہیں ہوئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت الی اللہ کو سن کر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ آخر آپ کا وہ رب ہے کیسا کس کی بندگی و عبادت کی طرف آپؐ لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ اس کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورت ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مکے میں جب حضرت بلالؓ کا آقا امیہ بن خلف ان کو دھوپ میں تپتی ہوئی ریت میں لٹا کر ایک بڑا سا پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیتا تھا تو وہ ’احد احد‘ پکارتے تھے۔ یہ لفظ ’احد‘ اسی سورہ سے ماخوذ تھا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی (طَبرانی)۔
ابو العالیہ نے حضرت اُبَی بن کعبؓ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی (مسند احمد، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ترمذی، بخاری فی التاریخ، ابن المنذر، حاکم، بیہقی)۔ ترمذی نے اسی مضمون کی ایک روایت ابو العالیہ سے نقل کی ہے جس میں حضرت اُبی بن کعبؓ کا حوالہ نہیں ہے اور اسے صحیح تر کہا ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہؓ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی نے، اور بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابو یعلیٰ، ابن جریر، ابن المنذر، طَبرانی فی الاوسط، بیہقی، ابو نعیم فی الحلیہ)۔
عکرمہ نے ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہودیوں کا گروہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں کعب بن اشرف اور حُبی بن اخطب وغیرہ شامل تھے، اور انہوں نے کہا ’اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہمیں بتائیے کہ آپ کا وہ رب کیسا ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے۔‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابن ابی حاتم، ابن عدی، بیہقی فی الاسماء و الصفات)۔
۔حضرت انس کا بیان ہے کہ خیبر کے کچھ یہودی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا ’اے ابو القاسمؐ! اللہ نے ملائکہ کو نورِ حجاب سے، آدم کو مٹی کے سڑے ہوۓ گارے سے، ابلیس کو آگ کے شعلے ےسے، آسمان کو دھوئیں سے اور زمین کو پانی کے جھاگ سے بنایا، اب ہمیں اپنے رب کے متعلق بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر جبرئیلؑ آئے اور انہوں نے کہا ’ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ان سے کہئے کہ ہو اللہ احد۔
عامر بن امطفیل نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا ‘ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلاتے ہیں؟‘۔ آپؐ نے فرمایا ’اللہ کی طرف‘۔ عامر نے کہا ’اچھا تو اس کی کیفیت مجھے بتائیے۔ وہ سونے سے بنا ہوا ہے یا چاندی سے یا لوہے سے؟‘ اس پر یہ سورہ نازل ہوئی۔
ضحاک اور قتادہ اور مقاتل کا بیان ہے کہ یہودیوں کے کچھ علماء حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آۓ اور انہوں نے کہا ’اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اپنے رب کی کیفیت ہمیں بتائیے، شاید کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آئیں۔ اللہ نے اپنی صفت تورات میں نازل کی ہے، آپ بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟، کس جنس سے ہے؟ سونے سے بنا ہے یا تانبے سے یا پیتل سے یا لوہے سے یا چاندی سے؟ اور کیا وہ کھاتا اور پیتا ہے؟ اور کس سے اس نے دنیا وراثت میں پائی ہے، اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہو گا؟‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سات پادریوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا ’ہمیں بتائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رب کیسا ہے؟ کس چیز سے بنا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، ’میرا رب کسی چیز سے نہیں بنا ہے، وہ تمام اشیاء سے جدا ہے‘ ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف لوگوں نے رسول الہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس معبود کی ماہیت اور کیفیت دریافت کی تھی جس کی بندگی و عبادت کی طرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ اور ہر موقع پر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو جواب میں یہی سورت نازل ہوئی۔ اس کے بعد مدینہ طیبہ میں یہودیوں نے کبھی عیسائیوں نے اور کبھی عرب کے دوسرے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی نوعیت کے سوالات کئے، اور ہر مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوا کہ جواب میں یہی سورت آپ ان کو سنا دیں۔ ان روایات میں سے ہر ایک میں یہ جو کہا گیا ہے کہ اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی تھی۔ اس سے کسی کو یہ خیال نہ ہونا چاہئے کہ یہ سب روایتیں باہم متضاد ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں اگر پہلے سے کوئی آیت یا کوئی سورہ نازل شدہ ہوتی تھی، تو بعد میں جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے وہی مسئلہ پیش کیا جاتا، اللہ کی طرف سے ہدایت آ جاتی تھی کہ اس کا جواب فلاں آیت یا سورے میں ہے یا اس کے جواب میں وہ آیت یا سورہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دی جائے۔ احادیث کے راوی اس چیز کو یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ جب فلاں معاملہ پیش آیا یا فلاں سوال کیا گیا، تو یہ آیت یا سورہ نازل ہوئی۔ اس کو تکرارِ نزول سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک آیت یا سورہ کا کئی مرتبہ نازل ہونا۔ پس صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ در اصل مکی ہے، بلکہ اس کے مضمون پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکے کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بیان میں قرآن کی مفصل آیات ابھی نازل نہیں ہوئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت الی اللہ کو سن کر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ آخر آپ کا وہ رب ہے کیسا کس کی بندگی و عبادت کی طرف آپؐ لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ اس کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورت ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مکے میں جب حضرت بلالؓ کا آقا امیہ بن خلف ان کو دھوپ میں تپتی ہوئی ریت میں لٹا کر ایک بڑا سا پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیتا تھا تو وہ ’احد احد‘ پکارتے تھے۔ یہ لفظ ’احد‘ اسی سورہ سے ماخوذ تھا۔
Theme and Subject Matter
A little consideration of the traditions regarding the occasion of the revelation of this Surah, shows what were the religious concepts of the world at the time the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) began to preach the message of Tauhid. The idolatrous polytheists were worshiping gods made of wood, stone, gold, silver and other substances. These gods had a form, shape and body. The gods and goddesses were descended from each other. No goddess was without a husband and no god without a wife. They stood in need of food and drink and their devotees arranged these for them. A large number of the polytheists believed that God assumed human form and there were some people who descended from Him. Although the Christians claimed to believe in One God, yet their God also had at least a son, and besides the Father and Son, the Holy Ghost also had the honor of being an associate in Godhead: so much so that God had a mother and a mother-in-law too. The Jews also claimed to believe in One God, but their God too was not without physical, material and other human qualities and characteristics. He went for a stroll, appeared in human form, wrestled with a servant of His, and was father of a son, Ezra. Besides these religious communities, the zoroastrians were fire worshipers, and the Sabeans star worshipers. Under such conditions when the people were invited to believe in Allah, the One; Who has no associate, it was inevitable that questions arose in the minds as to what kind of a God it was, Who was one and Only Lord and invitation to believe in Whom was being given at the expense of all other gods and deities. It is a miracle of the Quran that in a few words briefly it answered all the questions and presented such a clear concept of the Being of Allah as destroyed all polytheistic concepts, without leaving any room for the ascription of any of the human qualities to His Being.
موضوع اور مضمون
شان نزول کے بارے میں جو روایات اوپر درج کی گئی ہیں، ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم توحید کی دعوت لے کر اٹھے تھے، اُس وقت دنیا کے مذہبی تصورات کیا تھے۔ بت پرست مشرکین ایسے خداؤں کو پوج رہے تھے جو لکڑی، پتھر، سونے، چاندی وغیرہ مختلف چیزوں کے بنے ہوئے تھے۔ شکل صورت اور جسم رکھتے تھے۔ دیویوں اور دیوتاؤں کی با قاعدہ نسل چلتی تھی۔ کوئی دیوی بے شوہر نہ تھی اور کوئی دیوتا بے زوجہ نہ تھا۔ ان کو کھانے پینے کی ضرورت بھی لاحق ہوتی تھی اور ان کے پرستار ان کے لئے اس کا انتظام کرتے تھے۔ مشرکین کی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل تھی کہ خدا انسانی شکل میں ظہور کرتا ہے اور کچھ لوگ اس کے اوتار ہوتے ہیں۔ عیسائی اگرچہ ایک خدا کو ماننے کے مدعی تھے مگر ان کا خدا بھی کم از کم ایک بیٹا تو رکھتا ہی تھا اور باپ بیٹے کے ساتھ خدائی میں روح القدس کو بھی حصے دار ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حتیٰ کہ خدا کی ماں بھی ہوتی تھی اور اس کی ساس بھی۔ یہودی بھی ایک خدا کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے مگر ان کا خدا بھی مادیت اور جسمانیت اور دوسری انسانی صفات سے خالی نہ تھا۔ وہ ٹہلتا تھا، انسانی شکل میں نمودار ہوتا تھا۔ اپنے کسی بندے سے کشتی بھی لڑ لیتا تھا اور ایک عدد بیٹے (عزیر) کا باپ بھی تھا۔ ان مذہبی گروہوں کے علاوہ مجوسی آتش پرست تھے اور صابئی ستارہ پرست۔ اس حالت میں جب اللہ وحدہٗ لا شریک کو ماننے کی دعوت لوگوں کو دی گئی تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا ایک لازمی امر تھا کہ وہ رب ہے کس قسم کا؟ جسے تمام ارباب اور معبودوں کو چھوڑ کر تنہا ایک ہی رب اور معبود تسلیم کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے ان سوالات کا جواب چند الفاظ میں دے کر اللہ کی ہستی کا ایسا واضح تصور پیش کر دیا جو تمام مشرکانہ تصورات کا قلع قمع کر دیتا ہے اور اس کی ذات کے ساتھ مخلوقات کی صفات میں سے کسی صفت کی آلودگی کے لئے کوئئ گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا۔
Merit and Importance
That is why the Holy Messenger of Allah (Peace Be Upon Him) held this Surah in great esteem, and he made the Muslims realize its importance in different ways so that they recited it frequently and disseminated it among the people. For it states the foremost and fundamental doctrine of Islam (viz. Tauhid) in four such brief sentences as are immediately impressed on human memory and can be read and recited easily. There are a great number of the traditions of Hadith, which show that the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) on different occasions and in different ways told the people that this Surah is equivalent to one third the Quran. Several ahadith on this subject have been related in Bukhari, Muslim, Abu Daud; Nasai, Tirmidhi, Ibn Majah, Musnad Ahmad, Tabarani and other books, on the authority of Abu Said Khudri, Abu Hurairah, Abu Ayyub Ansari, Abu Ad-Darda, Muadh Bin Jabal, Jabir Bin Abdullah, Ubayy Bin Kab, Umm Kulthum Bint Uqbah Bin Abi Muait, Ibn Umar, Ibn Masud, Qatadah Bin An-Numan, Anas Bin Malik, and Abu Masud (Peace Be Upon Him). The commentators have given many explanations of the Holy Prophet's this, saying. But in our opinion it simply means that the religion presented by the Quran is based on three doctrines: Tauhid, Apostleship and the Hereafter. This Surah teaches Tauhid, pure and undefiled. Therefore, the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) regarded it as, equal to one-third of the Quran.
A tradition on the authority of Hadrat Aishah has been related in Bukhari, Muslim and other collections of the Ahadith, saying that the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) sent a man as leader of an expedition. During the journey he concluded his recitation of the Quran in every Prayer with Qul Huwa-Allahu ahad. On their return him companions mentioned this before the Holy Prophet. He said: "Ask him why he did so." When the man was asked, he replied: " In this Surah the attributes of the Merciful God have been stated; therefore, I love to recite it again and again." When the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) heard this reply, he said to the people: " Inform him that Allah holds him in great love and esteem."
A similar incident has been related in Bukhari, on the authority of Hadrat Anas. He says: "A man from among the Ansar led the Prayers in the Quba Mosque. His practice was that in every rak`ah he first recited this Surah and then would join another Surah to it. The people objected to it and said to him: "Don't you think that Surah Ikhlas is by itself enough? Why do you join another Surah to it? You should either recite only this surah, or should leave it and recite some other Surah. He said: "I cannot leave it, I would rather give up leadership in the Prayer, if you so desired." The people did not approve that another man be appointed leader instead of him. At last, the matter was brought before the Holy Prophet (Peace Be Upon Him). He asked the man, " What prevents you from conceding what your companions desire? What makes you recite this particular Surah in every rak`ah?" The man replied: "I have great love for it." The Holy Prophet (Peace Be Upon Him) remarked: " Your this love for this Surah has earned you entry into Paradise."
A tradition on the authority of Hadrat Aishah has been related in Bukhari, Muslim and other collections of the Ahadith, saying that the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) sent a man as leader of an expedition. During the journey he concluded his recitation of the Quran in every Prayer with Qul Huwa-Allahu ahad. On their return him companions mentioned this before the Holy Prophet. He said: "Ask him why he did so." When the man was asked, he replied: " In this Surah the attributes of the Merciful God have been stated; therefore, I love to recite it again and again." When the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) heard this reply, he said to the people: " Inform him that Allah holds him in great love and esteem."
A similar incident has been related in Bukhari, on the authority of Hadrat Anas. He says: "A man from among the Ansar led the Prayers in the Quba Mosque. His practice was that in every rak`ah he first recited this Surah and then would join another Surah to it. The people objected to it and said to him: "Don't you think that Surah Ikhlas is by itself enough? Why do you join another Surah to it? You should either recite only this surah, or should leave it and recite some other Surah. He said: "I cannot leave it, I would rather give up leadership in the Prayer, if you so desired." The people did not approve that another man be appointed leader instead of him. At last, the matter was brought before the Holy Prophet (Peace Be Upon Him). He asked the man, " What prevents you from conceding what your companions desire? What makes you recite this particular Surah in every rak`ah?" The man replied: "I have great love for it." The Holy Prophet (Peace Be Upon Him) remarked: " Your this love for this Surah has earned you entry into Paradise."
فضیلت اور اہمیت
یہی وجہ ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہ میں اس سورت کی بڑی عظمت تھی اور آپؐ مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اس کی اہمیت محسوس کراتے تھے تا کہ وہ کثرت سے اس کو پڑھیں اور عوام الناس اسے پھیلائیں کیوں کہ یہ اسلام کے اولین بنیادی عقیدے (توحید) کو چار ایسے مختصر فقروں میں بیان کر دیتی ہے جو فوراً انسان کے ذہن نشین ہو جاتے ہیں اور آسانی سے زبانوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ احادیث میں کثرت سے یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے بتایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، طبرانی وغیرہ میں اس مضمون کی متعدد احادیث ابو سعید خدریؓ، ابو ہریرہؓ، ابو ایوب انصاریؓ، ابو درداءؓ، معاذؓ بن جبل، جابرؓ بن عبد اللہ، اُبَی بن کعبؓ، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط، ابن عمرؓ، ابن مسعودؓ، قتادہؓ بن النعمان، انسؓ بن مالک اور ابو مسعودؓ سے منقول ہوئی ہیں۔ مفسرین نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے اس ارشاد کی بہت سی توجیہات بیان کی ہیں۔مگر ہمارے نزدیک سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ قرآن مجید جس دین کو پیش کرتا ہے، اس کی بنیاد تین عقیدے ہیں۔ ایک توحید، دوسرے رسالت، تیسرے آخرت۔ یہ سورہ چونکہ خالص توحید کو بیان کرتی ہے، اس لئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا۔ حضرت عائشہؓ کی یہ روایت بخاری و مسلم اور بعض دوسری کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک صاحب کو ایک مہم پر سردار بنا کر بھیجا، اور اس پورے سفر کے دوران میں ان کا مستقل طریقہ یہ رہا کہ ہر نماز میں وہ قل ہو اللہ احد پر قرات ختم کرتے تھے۔ واپسی پر ان کے ساتھیوں نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا، ’ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟‘۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں رحمٰن کی صفت بیان کی گئی ہے، اس کا پڑھنا مجھے بہت محبوب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات سنی تو لوگوں سے فرمایا ’’اخبروہ ان اللہ تعالیٰ محبُہٗ۔ ’ان کو خبر دے دو کہ اللہ تعالیٰ ان کو محبوب رکھتا ہے‘‘۔ اسی سے ملتا جلتا واقعہ بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک صاحب مسجد قُبا میں نماز پڑھاتے تھے اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ ہر رکعت میں پہلے قل ہوا اللہ پڑھتے پھر اور کوئی سورت تلاوت کرتے۔ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور ان سے کہا کہ یہ تم کیا کرتے ہو کہ قل ہو اللہ پڑھنے کے اسے کافی نہ سمجھ کر اور کوئی سورت بھی اس کے ساتھ ملا لیتے ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یا تو صرف اسی کو پڑھو، اور یا اسے چھوڑ کر کوئی اور سورت پڑھو‘۔ انہوں نے کہا۔ ‘میں اسے نہیں چھوڑ سکتا، تم چاہو تو میں تمہیں نماز پڑھاؤں ورنہ میں امامت چھوڑ دوں‘۔ لیکن لوگ ان کی جگہ کسی اور کو امام بنانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ آخرکار معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ ’تمہارے ساتھی جو کچھ چاہتے ہیں، اسے قبول کرنے میں تم کو کیا امر مانع ہے؟ تمہیں ہر رکعت میں یہ سورت پڑھنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟‘ انہوں نے عرض کیا۔ ‘مجھے اس سے بہت محبت ہے۔‘ آپؐ نے فرمایا، ’حبکِ ایاَ ہا ادخلک الجنۃ۔ اس سورت سے تمہاری محبت نے تمہیں جنت میں داخل کر دیا ۔‘
Sura With Tafsir and Translation
112:Sura Al-Ikhlas In Urdu | |
File Size: | 1096 kb |
File Type: |
112:Sura Al-Ikhlas In English | |
File Size: | 234 kb |
File Type: |