Sura Ash-Shuara
Introduction
Sura Ash-Shuara (Arabic: سورة الشعراء) (The Poets) is the 26th sura of the Quran in 19th part (Juz) of the Quran with 227 ayat.
تعارف
سورہ الشعرآء(الشعرآءکے معنی شعرآء,شعرآءکا واحد شاعر) قرآن مجید کی 26 ویں سورت جو قرآن کے19ویں پارہ میں ہے اس میں 11 رکوع اور 227 آیات ہیں۔
Name
The Surah takes its name from Verse 224 (Arabic:وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ) in which the word "Ash-Shuaraa" occurs.
نام
آیت 224 وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ سے ماخوذ ہے۔
Period of Revelation
The subject matter and the style show, and the traditions confirm, that it was revealed during the middle Makkan period. According to Ibn Abbas (ALLAH Bless With Him), Surah Ta Ha was revealed first, then Surah Al-Waqiah, and then Surah Ash-Shuaraa.(Ruh-ul-Ma'ani, Vol.2, P. 64). About Surah Ta Ha it is well known that it had been revealed before Hadrat Umar (ALLAH Bless With Him) embraced Islam.
زمانۂ نزول
مضمون ور انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکہ کا دور متوسط ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے سورہ طٰہٰ نازل ہوئی پھر واقعہ اور اس کے بعد الشعراء (روح المعانی جلد 19 صفحہ 64)۔ اور سورہ طٰہٰ کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔
Subject Matter and Topics
The background of the Surah is that the disbelievers of Makkah were persistently refusing, on one pretext or the other, to accept the message of Islam given by the Holy Prophet (Peace Be Upon Him). Sometimes they would say that he did not show them any sign to convince them of his Prophethood; sometimes they would brand him as a poet or a sorcerer and mock his message; and sometimes they would ridicule his Mission, saying that his followers were either a few foolish youth, or the poor people and slaves - whereas, they argued, if his Mission had really some value for the people, the nobles and the elders would have accepted it first. Thus, while on the one hand, the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) was becoming wearied by his efforts to show them rationally the errors of their creeds and prove the truth of the Doctrines of Tauhid and the Hereafter, the disbelievers, on the other, were never tired of adopting one kind of obduracy after the other. This state of affairs was causing great anguish and grief to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him).
Such were the conditions when this Surah was revealed. It begins with words of consolation to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him), implying,
"Why do you fret for their sake?If these people have not believed in you, it is not because they have not seen any Sign, but because they are obdurate. They will not listen to reason they want to see a Sign which makes them bow their heads in humility. When this Sign is shown in due course of time, they will themselves realize that what was being presented to them was the Truth."
After this introduction, till Verse 191, one and the same theme has been presented continuously, and it is said:
"The whole earth abounds in such Signs as can guide a seeker after truth to Reality, but the stubborn and misguided people have never believed even after seeing the Signs, whether these were the Signs of the natural phenomena or the miracles of the Prophets. These wretched people have stubbornly adhered to their erroneous creeds till the Divine scourge actually overtook them."
It is to illustrate this that the history of seven of the ancient tribes has been told, who persisted in disbelief just like the disbelievers of Makkah. In this connection, the following points have been stressed:
(b) Those which were seen by Pharaoh and his people, Noah's people, the Ad and the Thamud, Lot's people and the people of Aiykah. Now it is for the disbelievers to decide which kind of the Signs they are eager to see.
Such were the conditions when this Surah was revealed. It begins with words of consolation to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him), implying,
"Why do you fret for their sake?If these people have not believed in you, it is not because they have not seen any Sign, but because they are obdurate. They will not listen to reason they want to see a Sign which makes them bow their heads in humility. When this Sign is shown in due course of time, they will themselves realize that what was being presented to them was the Truth."
After this introduction, till Verse 191, one and the same theme has been presented continuously, and it is said:
"The whole earth abounds in such Signs as can guide a seeker after truth to Reality, but the stubborn and misguided people have never believed even after seeing the Signs, whether these were the Signs of the natural phenomena or the miracles of the Prophets. These wretched people have stubbornly adhered to their erroneous creeds till the Divine scourge actually overtook them."
It is to illustrate this that the history of seven of the ancient tribes has been told, who persisted in disbelief just like the disbelievers of Makkah. In this connection, the following points have been stressed:
- The Signs are of two kinds:
(b) Those which were seen by Pharaoh and his people, Noah's people, the Ad and the Thamud, Lot's people and the people of Aiykah. Now it is for the disbelievers to decide which kind of the Signs they are eager to see.
- The mentality of the disbeliever has been the same throughout the ages; their arguments and their objections, and their excuses and subterfuges for not believing have been similar and ultimately the fates that they met have also been the same. Likewise, the Prophets in every age presented the same teachings, their personal character and their reasoning and arguments against their opponents were the same, and they were all similarly blessed with mercy by ALLAH Almighty. Both these patterns of behavior and conduct are found in history, and the disbelievers could themselves see as to which respective patterns they and the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) belonged.
- ALLAH is All Mighty, All Powerful and All Merciful at the same time. History contains instances of His Wrath as well as of His Mercy. Now, therefore, it is for the people to decide whether they would like to deserve ALLAH's Mercy or His Wrath.
- Lastly, the discussion has been summed up, saying
موضوع اور مباحث
تقریر کا پس منظر یہ ہ کہ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تبلیغ و تذکیر کا مقابلہ پیہم جحود و انکار سے کر رہے تھے اور اس کے لیے طرح طرح کے بہا نے تراشے چلے جاتے تھے۔ کبھی کہتے کہ تم نے ہمیں کوئی نشانی تو دکھائی ہی نہیں ، پھر ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم نبی ہو۔ کبھی آپ کو شاعر اور کاہن قرار دے کر آپ کی تعلیم و تلقین کو باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے۔ اور کبھی آپ کو شاعر اور کاہن قرار دے کر آپ کی تعلیم و تلقین کو باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے۔ اور کبھی یہ کہہ کر آپ کے مشن کا استخفاف کرتے کہ ان کے پیرو یا تو چند نادان نوجوان ہیں ، یا پھر ہمارے معاشرے کے ادنی طبقات کے لوگ، حالانکہ اگر اس تعلیم میں کوئی جان ہوتی تو اشراف قوم اور شیوخ اس کو قبول کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان لوگوں کو معقول دلائل کے ساتھ ان کے عقائد کی غلطی اور توحید و معاد کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتے کرتے تھکے جاتے تھے ، مگر وہ ہٹ دھرمی کی نت نئی صورتیں اختیار کرتے نہ تھکتے تھے۔ یہی چیز آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اور اس غم میں آپ کی جان گھلی جاتی تھی۔
ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ تم ان کے پےچھ ہی جان کیوں گھلاتے ہو؟ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی نشانی نہیں دیکھی ہے ، بلکہ اس کی وجہ پہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم ہیں ، سمجھانے سے نہیں ماننا چاہتے ، کسی ایسی نشانی کے طالب میں جو زبر دستی ان کی گردنیں جھکا دے ، اور وہ نشانی اپنے وقت پر جب آ جائے گی تو انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ جو بات انہیں سمجھائی جا رہی تھی وہ کیسی برحق تھی۔ اس تمہید کے بعد دسویں رکوع تک جو مضمون مسلسل بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ طالب حق لوگوں کے لیے تو خدا کی زمین پر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر وہ حقیقت کو پہچان سکتے ہیں۔ لیکن ہٹ دھرم لوگ کبھی کسی چیز و دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے ہیں ، نہ آفاق کی نشانیاں دیکھ کر اور نہ انبیاء کے معجزات دیکھ کر یہ وہ تو ہمیشہ اس وقت تک اپنی ضلالت پر جمے رہے ہیں جب تک خدا کے عذاب نے آ کر ان کو گرفت میں نہیں لے لیا ہے۔ اسی مناسبت سے تاریخ کی سات قوموں کے حالات پیش کیے گئے ہیں جنہوں نے اسی ہٹ دھرمی سے کام لیا تھا جس سے کفار مکہ کام لے رہے تھے۔ اور اس تاریخی بیان کے ضمن میں چند باتیں ذہن نشین کرائی گئی ہیں :۔
اول یہ کہ نشانیاں دو طرح کی ہیں۔ ایک قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو خدا کی زمین پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر صاحب عقل آدمی تحقیق کر سکتا ہے کہ نبی جس چیز کی طرف بلا رہا ہے وہ حق ہے یا نہیں۔ دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو فرعون اور اسکی قوم نے دیکھیں ، قوم نوح نے دیکھیں ، عاد اور ثمود نے دیکھیں ، قوم لوط اور اصحاب الاَیکہ نے دیکھیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا خود کفار کا اپنا کام ہے کہ وہ کس قسم کی نشانی دیکھا چاہتے ہیں۔
دوم یہ کہ ہر زمانے میں کفار کی ذہنیت ایک سی رہی ہے۔ ان کی حجتیں ایک ہی طرح کی تھیں۔ ان کے اعتراضات یکساں تھے۔ ایمان نہ لانے کے لیے ان کے حیلے اور بہانے یکساں تھے۔ اور آخر کار ان کا انجام بھی یکساں ہی رہا۔ اس کے برعکس ہر زمانے میں انبیاء کی تعلیم ایک تھی۔ ان کی سیرت و اخلاق کا رنگ ایک تھا۔ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں ان کی دلیل و حجت کا انداز ایک تھا۔ اور ان سب کے ساتھ اللہ کی رحمت کا معاملہ بھی ایک تھا۔ یہ دونوں نمونے تاریخ میں موجود ہیں۔ کفار خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی اپنی تصویر کس نمونے سے ملتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات میں کس نمونے کی علامات پائی جاتی ہیں۔
تیسری بات جو بار بار دہرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا زبردست، قادر و توانا بھی ہے اور رحیم بھی۔ تاریخ میں اس کے قہر کی مثالیں بھی موجود ہیں اور رحمت کی بھی۔ اب یہ بات لوگوں کو خود ہی طے کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے رحم کا مستحق بناتے ہیں یا قہر کا۔ آخری رکوع میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم لوگ اگر نشانیاں ہی دیکھنا چاہتے ہو، تو آخر وہ خوفناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں۔ اس قرآن کو دیکھو جو تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھو۔ ان کے ساتھیوں کو دیکھو۔ کیا یہ کلام کسی شیطان یا جن کا کلام ہو سکتا ہے ؟ کیا اس کلام کا پیش کرنے والا تمہیں کاہن نظر آتا ہے ؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب تمہیں ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے شاعر اور ان کے ہم مشرب ہوا کرتے ہیں ؟ ضدّم ضدّا کی بات دوسری ہے ، مگر اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھو کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں۔ اگر دلوں میں تم خود جانتے ہو کہ کہانت اور شاعری سے اس کا کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے تو پھر یہ بھی جان لو کہ تم ظلم کر رہے ہو اور ظالموں کا سا انجام دیکھ کر رہو گے۔
ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ تم ان کے پےچھ ہی جان کیوں گھلاتے ہو؟ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی نشانی نہیں دیکھی ہے ، بلکہ اس کی وجہ پہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم ہیں ، سمجھانے سے نہیں ماننا چاہتے ، کسی ایسی نشانی کے طالب میں جو زبر دستی ان کی گردنیں جھکا دے ، اور وہ نشانی اپنے وقت پر جب آ جائے گی تو انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ جو بات انہیں سمجھائی جا رہی تھی وہ کیسی برحق تھی۔ اس تمہید کے بعد دسویں رکوع تک جو مضمون مسلسل بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ طالب حق لوگوں کے لیے تو خدا کی زمین پر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر وہ حقیقت کو پہچان سکتے ہیں۔ لیکن ہٹ دھرم لوگ کبھی کسی چیز و دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے ہیں ، نہ آفاق کی نشانیاں دیکھ کر اور نہ انبیاء کے معجزات دیکھ کر یہ وہ تو ہمیشہ اس وقت تک اپنی ضلالت پر جمے رہے ہیں جب تک خدا کے عذاب نے آ کر ان کو گرفت میں نہیں لے لیا ہے۔ اسی مناسبت سے تاریخ کی سات قوموں کے حالات پیش کیے گئے ہیں جنہوں نے اسی ہٹ دھرمی سے کام لیا تھا جس سے کفار مکہ کام لے رہے تھے۔ اور اس تاریخی بیان کے ضمن میں چند باتیں ذہن نشین کرائی گئی ہیں :۔
اول یہ کہ نشانیاں دو طرح کی ہیں۔ ایک قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو خدا کی زمین پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر صاحب عقل آدمی تحقیق کر سکتا ہے کہ نبی جس چیز کی طرف بلا رہا ہے وہ حق ہے یا نہیں۔ دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو فرعون اور اسکی قوم نے دیکھیں ، قوم نوح نے دیکھیں ، عاد اور ثمود نے دیکھیں ، قوم لوط اور اصحاب الاَیکہ نے دیکھیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا خود کفار کا اپنا کام ہے کہ وہ کس قسم کی نشانی دیکھا چاہتے ہیں۔
دوم یہ کہ ہر زمانے میں کفار کی ذہنیت ایک سی رہی ہے۔ ان کی حجتیں ایک ہی طرح کی تھیں۔ ان کے اعتراضات یکساں تھے۔ ایمان نہ لانے کے لیے ان کے حیلے اور بہانے یکساں تھے۔ اور آخر کار ان کا انجام بھی یکساں ہی رہا۔ اس کے برعکس ہر زمانے میں انبیاء کی تعلیم ایک تھی۔ ان کی سیرت و اخلاق کا رنگ ایک تھا۔ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں ان کی دلیل و حجت کا انداز ایک تھا۔ اور ان سب کے ساتھ اللہ کی رحمت کا معاملہ بھی ایک تھا۔ یہ دونوں نمونے تاریخ میں موجود ہیں۔ کفار خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی اپنی تصویر کس نمونے سے ملتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات میں کس نمونے کی علامات پائی جاتی ہیں۔
تیسری بات جو بار بار دہرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا زبردست، قادر و توانا بھی ہے اور رحیم بھی۔ تاریخ میں اس کے قہر کی مثالیں بھی موجود ہیں اور رحمت کی بھی۔ اب یہ بات لوگوں کو خود ہی طے کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے رحم کا مستحق بناتے ہیں یا قہر کا۔ آخری رکوع میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم لوگ اگر نشانیاں ہی دیکھنا چاہتے ہو، تو آخر وہ خوفناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں۔ اس قرآن کو دیکھو جو تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھو۔ ان کے ساتھیوں کو دیکھو۔ کیا یہ کلام کسی شیطان یا جن کا کلام ہو سکتا ہے ؟ کیا اس کلام کا پیش کرنے والا تمہیں کاہن نظر آتا ہے ؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب تمہیں ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے شاعر اور ان کے ہم مشرب ہوا کرتے ہیں ؟ ضدّم ضدّا کی بات دوسری ہے ، مگر اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھو کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں۔ اگر دلوں میں تم خود جانتے ہو کہ کہانت اور شاعری سے اس کا کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے تو پھر یہ بھی جان لو کہ تم ظلم کر رہے ہو اور ظالموں کا سا انجام دیکھ کر رہو گے۔
Sura With Tafsir and Translation
26:Sura Ash-Shuara In English | |
File Size: | 663 kb |
File Type: |