Sura Al-Mu’minoon
Introduction
Sura Al-Mu’minoon (Arabic: سورة المؤمنون) (The Believers) is the 23rd Surah of the Qur'an in 18th part (Juz) of the Quran with 118 ayat (Verses).
تعارف
سورہ المؤمنون (مؤمنون کے معنی ایمان والے) قرآن مجید کی 23 ویں سورت جو 18 ویں پارے کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے مکی دور میں نازل ہوئی۔ اس میں 118 آیات اور 6 رکوع ہیں۔
Name
The surah takes its name, Al-Mu'minun, from the first Verse (Arabic:قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ).
نام
پہلی ہی آیت قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ سے ماخوذ ہے
Period of Revelation
Both its style and theme indicate that it was revealed during the middle stage of Prophethood at Makkah. Reading between the lines, one feels that a bitter conflict had begun between the, Holy Prophet (Peace Be Upon Him) and the disbelievers of Makkah, though the persecution by them had not yet become tyrannical. It appears that the surah was sent down during the climax of the "Famine" in Makkah (Verse No. 75-76), which according to authentic traditions occurred during the middle stage of Prophethood. Moreover, according to a tradition related by 'Urwah bin Zubair, Hadarat Umar (ALLAH Bless With Both) who had embraced Islam by that time, said,
"This Surah was revealed in my presence and I myself observed the state of the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) during its revelation. When the revelation ended , the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) remarked, 'On this occasion ten such Verses have been sent down to me that the one who measures up to them, will most surely go to Paradise. Then he recited the initial verses of the surah." (Ahmad, Tirmizi, Nasai, Hakim).
"This Surah was revealed in my presence and I myself observed the state of the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) during its revelation. When the revelation ended , the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) remarked, 'On this occasion ten such Verses have been sent down to me that the one who measures up to them, will most surely go to Paradise. Then he recited the initial verses of the surah." (Ahmad, Tirmizi, Nasai, Hakim).
زمانۂ نزول
انداز بیان اور مضامین ، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط ہے۔ پس منظر میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ نبیصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور کفار کے درمیان سخت کشمکش برپا ہے ، لیکن ابھی کفار کے ظلم و ستم نے پورا زور نہیں پکڑا ہے۔ آیت 75۔ 76 سے صاف طور پر یہ شہادت ملتی ہے کہ یہ مکے کے اس قحط کی شدت کے زمانے میں نازل ہوئی ہے جو معتبر روایات کی رو سے اسی دور متوسط میں برپا ہوا تھا۔
عروہ بن زُبیر رضی اللہ تعالی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عمررضی اللہ تعالی ایمان لا چکے تھے۔ وہ عبدالرحمٰن بن عبدالقاری رضی اللہ تعالی کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سورۃ ان کے سامنے نازل ہوئی ہے۔ وہ خود نزول وحی کی کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر طاری ہوتے دیکھ رہے تھے ، اور جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا، پھر آپ نے اس سورے کی ابتدائی آیات سنائیں (احمد، ترمذی ، نسائی، حاکم)۔
عروہ بن زُبیر رضی اللہ تعالی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عمررضی اللہ تعالی ایمان لا چکے تھے۔ وہ عبدالرحمٰن بن عبدالقاری رضی اللہ تعالی کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سورۃ ان کے سامنے نازل ہوئی ہے۔ وہ خود نزول وحی کی کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر طاری ہوتے دیکھ رہے تھے ، اور جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا، پھر آپ نے اس سورے کی ابتدائی آیات سنائیں (احمد، ترمذی ، نسائی، حاکم)۔
Theme Topics & Summary
The central theme of the surah is to invite the people to accept and follow the Message of the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) and the whole Surah revolves round this theme.
The fact that the people who have accepted the Message of the Holy Prophet have started acquiring such and such noble qualities of character is a practical proof of the truth of the Message. 1 - 11
In this passage, attention has been drawn to the creation of man and the universe to impress that the whole universe including man's own self, is a clear proof of the truth of the Holy Prophet's Message, which invites the people to accept Tauhid and life in the Hereafter. 12 - 22
Then the stories of the former Prophets and their communities have been cited as historical evidences of the truth of the Message. They prove the following things :
In this passage different arguments have been used to convince them that Mohammad (Peace Be Upon Him) was a true Prophet of ALLAH. Then they have been told that the Famine (Verse No. 75 - 76) was merely a warning and therefore "It is better for you to mend your ways; otherwise you will be visited by a terrible scourge." 68 - 77
Again they have been invited to observe the Signs in the universe and in their own selves because these are clear proofs of the truth of the Message of the Holy Prophet (Peace Be Upon Him). 78 - 95
The Holy Prophet (Peace Be Upon Him) has been told not to adopt any wrong way in retaliation to counteract the evil ways of the enemies, and to guard against the incitement of Satan. 96 - 97
In this concluding passage, the enemies of the truth have been warned that they shall have to render an account in the Hereafter and bear the consequences of their persecution of the Believers; therefore they should mend their ways. 98 - 118
The fact that the people who have accepted the Message of the Holy Prophet have started acquiring such and such noble qualities of character is a practical proof of the truth of the Message. 1 - 11
In this passage, attention has been drawn to the creation of man and the universe to impress that the whole universe including man's own self, is a clear proof of the truth of the Holy Prophet's Message, which invites the people to accept Tauhid and life in the Hereafter. 12 - 22
Then the stories of the former Prophets and their communities have been cited as historical evidences of the truth of the Message. They prove the following things :
- The objections and the doubts that the antagonists are raising against the Message of Mohammad (Peace Be Upon Him) are not new. These were raised against the former Prophets also whom they themselves acknowledged as Messengers of ALLAH. Therefore they should learn a lesson from their history and judge for themselves whether the Prophets were in the right or their objectors.
- The Message of Tauhid and the Hereafter that Mohammad (Peace Be Upon Him) is conveying is the same as was brought by the former Prophets; therefore they should accept it.
- They should take a warning from the consequences met by those communities who rejected the Message of their Prophets.
- All the Prophets brought one and the same religion from ALLAH and they all belonged to one and the same community. All other religions were invented by the people themselves and none of them is from ALLAH. 23 - 54
In this passage different arguments have been used to convince them that Mohammad (Peace Be Upon Him) was a true Prophet of ALLAH. Then they have been told that the Famine (Verse No. 75 - 76) was merely a warning and therefore "It is better for you to mend your ways; otherwise you will be visited by a terrible scourge." 68 - 77
Again they have been invited to observe the Signs in the universe and in their own selves because these are clear proofs of the truth of the Message of the Holy Prophet (Peace Be Upon Him). 78 - 95
The Holy Prophet (Peace Be Upon Him) has been told not to adopt any wrong way in retaliation to counteract the evil ways of the enemies, and to guard against the incitement of Satan. 96 - 97
In this concluding passage, the enemies of the truth have been warned that they shall have to render an account in the Hereafter and bear the consequences of their persecution of the Believers; therefore they should mend their ways. 98 - 118
موضوع و مباحث
اتباع رسول کی دعوت اس سورت کا مرکزی مضمون ہے اور پوری تقریر اسی مرکز کے گرد گھومتی ہے۔
آغاز کلام اس طرح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس پیغمبر کی بات مان لی ہے ، ان کے اندر یہ اور یہ اوصاف پیدا ہو رہے ہیں ، اور یقیناً ایسے ہی لوگ دنیا و آخرت کی فلاح کے مستحق ہیں۔
اس کے بعد انسان کی پیدائش، آسمان و زمین کی پیدائش، نباتات و حیوانات کی پیدائش، اور دوسرے آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، جس سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ توحید اور معاد کی جن حقیقتوں کو ماننے کے لیے یہ پیغمبر تم سے کہتا ہے ان کے برحق ہونے پر تمہارا اپنا وجود اور یہ پورا نظام عالم گواہ ہے۔
پھر انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے قصے شروع کیے گئے ہیں ، جو بظاہر تو قصے ہی نظر آتے ہیں ، لیکن در اصل اس پیرائے میں چند باتیں سامعین کو سمجھائی گئی ہیں
اول یہ کہ آج تم لوگ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت پر جو شبہات و اعتراضات وارد کر رہے ہو وہ کچھ نئے نہیں ہیں۔ پہلے بھی جو انبیاء دنیا میں آئے تھے ، جن کو تم خود فرستادہ الہٰی مانتے ہو، ان سب پر ان کے زمانے کے جاہلوں نے یہی اعتراضات کیے تےی۔ اب دیکھ لو کہ تاریخ کا سبق کیا بتا رہا ہے۔ اعتراضات کرنے والے بر حق تھے یا انبیاء؟
دوم یہ کہ توحید و آخرت کے متعلق جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دے رہے ہیں یہی تعلیم ہر زمانے کے انبیاء نے دی ہے۔ اس سے مختلف کوئی نرالی چیز آج نہیں پیش کی جا رہی ہے جو کبھی دنیا نے نہ سنی ہو۔
سوم یہ کہ جن قوموں نے انبیاء کی بات سن کر نہ دی اور ان کی مخالفت پر اصرار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔
چہارم یہ کہ خدا کی طرف سے ہر زمانے میں ایک ہی دین آتا رہا ہے اور تمام انبیاء ایک ہی امت کے لوگ تھے۔ اس دین واحد کے سوا جو مختلف مذاہب تم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہو یہ سب لوگوں کے طبع زاد ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی منجانب اللہ نہیں ہے۔
ان قصوں کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی خوش حالی ، مال و دولت، آل داد لاد چشم و خَدَمِ قوت و اقتدار وہ چیزیں نہیں ہیں جو کسی شخص یا گروہ کے راہ راست پر ہونے کی یقینی علامت ہوں اور اس بات کی دلیل قرار دی جائیں کہ خدا اس پر مہربان ہے اور اس کا رویہ خدا کو محبوب ہے۔ اسی طرح کسی کا غریب اور خستہ حال ہونا بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا اس سے اور اس کے رویے سے ناراض ہے۔ اصل چیز جس پر خد اکے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کا مدار ہے وہ آدمی کا ایمان اور اس کی خدا ترسی و راست بازی ہے۔ یہ باتیں اس لیے ارشاد ہوئی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کے مقابلے میں اس وقت جو مزاحمت ہو رہی تھی اس کے علم بردار سب کے سب مکے کے شیوخ اور بڑے بڑے سردار تھے۔ وہ اپنی جگہ خود بھی یہ گھمنڈ رکھتے تھے ، اور ان کے زیر اثر لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ نعمتوں کی بارش جن لوگوں پر ہو رہی ہے اور جو بڑھتے ہیں چلے جا رہے ہیں ان پر ضرور خدا اور دیوتاؤں کا کرم ہے۔ رہے یہ ٹوٹے مارے لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہیں ، ان کی تو حالت خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ خدا ان کے ساتھ نہیں ہے ، اور دیوتاؤں کی مار ہی ان پر پڑی ہوئی ہے۔
اس کے بعد اہل مکہ کو مختلف پہلوؤں سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قحط جو تم پر نازل ہوا ہے ، یہ ایک تنبیہ ہے۔ بہتر ہے کہ اس کو دیکھ کر سنبھلو اور راہ راست پر آ جاؤ۔ ورنہ اس کے بعد سخت تر سزا آئے گی جس پر بلبلا اٹھو گے۔
پھر ان کو از سر نو ان آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو کائنات میں اور خود ان کے اپنے وجود میں موجود ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھو، جس توحید اور جس حیات بعد الموت کی حقیقت سے یہ پیغمبر تک کو آگاہ کر رہا ہ ، کیا ہر طرف اس کی شہادت دینے والے آثار پھیلے ہوئے نہیں ہیں ؟ کیا تمہاری عقل اور فطرت اس کی صحت و صداقت پر گواہی نہیں دیتی ؟
پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں کیسا ہی برا رویہ اختیار کریں ، تم بھلے طریقوں ہی سے مدافعت کرنا۔ شیطان کبھی تم کو جوش میں لا کر برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ نہ کرنے پائے۔ خاتمہ کلام پر مخالفینِ حق کو آخرت کی باز پرس سے ڈرایا گیا ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جو کچھ تم دعوت حق و راس کے پیروؤں کے ساتھ کر رہے ہو اس کا سخت حساب تم سے لیا جائے گا۔
آغاز کلام اس طرح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس پیغمبر کی بات مان لی ہے ، ان کے اندر یہ اور یہ اوصاف پیدا ہو رہے ہیں ، اور یقیناً ایسے ہی لوگ دنیا و آخرت کی فلاح کے مستحق ہیں۔
اس کے بعد انسان کی پیدائش، آسمان و زمین کی پیدائش، نباتات و حیوانات کی پیدائش، اور دوسرے آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، جس سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ توحید اور معاد کی جن حقیقتوں کو ماننے کے لیے یہ پیغمبر تم سے کہتا ہے ان کے برحق ہونے پر تمہارا اپنا وجود اور یہ پورا نظام عالم گواہ ہے۔
پھر انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے قصے شروع کیے گئے ہیں ، جو بظاہر تو قصے ہی نظر آتے ہیں ، لیکن در اصل اس پیرائے میں چند باتیں سامعین کو سمجھائی گئی ہیں
اول یہ کہ آج تم لوگ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت پر جو شبہات و اعتراضات وارد کر رہے ہو وہ کچھ نئے نہیں ہیں۔ پہلے بھی جو انبیاء دنیا میں آئے تھے ، جن کو تم خود فرستادہ الہٰی مانتے ہو، ان سب پر ان کے زمانے کے جاہلوں نے یہی اعتراضات کیے تےی۔ اب دیکھ لو کہ تاریخ کا سبق کیا بتا رہا ہے۔ اعتراضات کرنے والے بر حق تھے یا انبیاء؟
دوم یہ کہ توحید و آخرت کے متعلق جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دے رہے ہیں یہی تعلیم ہر زمانے کے انبیاء نے دی ہے۔ اس سے مختلف کوئی نرالی چیز آج نہیں پیش کی جا رہی ہے جو کبھی دنیا نے نہ سنی ہو۔
سوم یہ کہ جن قوموں نے انبیاء کی بات سن کر نہ دی اور ان کی مخالفت پر اصرار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔
چہارم یہ کہ خدا کی طرف سے ہر زمانے میں ایک ہی دین آتا رہا ہے اور تمام انبیاء ایک ہی امت کے لوگ تھے۔ اس دین واحد کے سوا جو مختلف مذاہب تم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہو یہ سب لوگوں کے طبع زاد ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی منجانب اللہ نہیں ہے۔
ان قصوں کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی خوش حالی ، مال و دولت، آل داد لاد چشم و خَدَمِ قوت و اقتدار وہ چیزیں نہیں ہیں جو کسی شخص یا گروہ کے راہ راست پر ہونے کی یقینی علامت ہوں اور اس بات کی دلیل قرار دی جائیں کہ خدا اس پر مہربان ہے اور اس کا رویہ خدا کو محبوب ہے۔ اسی طرح کسی کا غریب اور خستہ حال ہونا بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا اس سے اور اس کے رویے سے ناراض ہے۔ اصل چیز جس پر خد اکے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کا مدار ہے وہ آدمی کا ایمان اور اس کی خدا ترسی و راست بازی ہے۔ یہ باتیں اس لیے ارشاد ہوئی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کے مقابلے میں اس وقت جو مزاحمت ہو رہی تھی اس کے علم بردار سب کے سب مکے کے شیوخ اور بڑے بڑے سردار تھے۔ وہ اپنی جگہ خود بھی یہ گھمنڈ رکھتے تھے ، اور ان کے زیر اثر لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ نعمتوں کی بارش جن لوگوں پر ہو رہی ہے اور جو بڑھتے ہیں چلے جا رہے ہیں ان پر ضرور خدا اور دیوتاؤں کا کرم ہے۔ رہے یہ ٹوٹے مارے لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہیں ، ان کی تو حالت خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ خدا ان کے ساتھ نہیں ہے ، اور دیوتاؤں کی مار ہی ان پر پڑی ہوئی ہے۔
اس کے بعد اہل مکہ کو مختلف پہلوؤں سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قحط جو تم پر نازل ہوا ہے ، یہ ایک تنبیہ ہے۔ بہتر ہے کہ اس کو دیکھ کر سنبھلو اور راہ راست پر آ جاؤ۔ ورنہ اس کے بعد سخت تر سزا آئے گی جس پر بلبلا اٹھو گے۔
پھر ان کو از سر نو ان آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو کائنات میں اور خود ان کے اپنے وجود میں موجود ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھو، جس توحید اور جس حیات بعد الموت کی حقیقت سے یہ پیغمبر تک کو آگاہ کر رہا ہ ، کیا ہر طرف اس کی شہادت دینے والے آثار پھیلے ہوئے نہیں ہیں ؟ کیا تمہاری عقل اور فطرت اس کی صحت و صداقت پر گواہی نہیں دیتی ؟
پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں کیسا ہی برا رویہ اختیار کریں ، تم بھلے طریقوں ہی سے مدافعت کرنا۔ شیطان کبھی تم کو جوش میں لا کر برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ نہ کرنے پائے۔ خاتمہ کلام پر مخالفینِ حق کو آخرت کی باز پرس سے ڈرایا گیا ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جو کچھ تم دعوت حق و راس کے پیروؤں کے ساتھ کر رہے ہو اس کا سخت حساب تم سے لیا جائے گا۔
Sura With Tafsir and Translation
23:Sura Al-Mu’minoon In English | |
File Size: | 584 kb |
File Type: |