Sura At-Taghabun
Sura At-Taghabun (Arabic: سورة التغابن) (Mutual Disillusion, Haggling) is the 64th sura of the Qur'an in 28th part of the Quran with 18 ayat. It is Medinan sura.
سورہ التغابن (التغابن کے معنی باہمی ایوس) قرآن مجید کی 64 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 18 آیات ہیں۔ یہ 28 ویں پارہ میں ماجود مدنی سورہ ہے
Name
The Surah takes its name from the sentence "Dhalika Yaum-Ut Taghabun"
(Arabic:يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) of verse 9, thereby implying that it is the Surah in which the word at taghabun has occurred.
(Arabic:يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) of verse 9, thereby implying that it is the Surah in which the word at taghabun has occurred.
نام
آیت نمبر 9 کے فقرے يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ سے ماخوذ ہے۔ یعنی وہ سورۃ جس میں لفظ تغابن آیا ہے۔
Period of Revelation
Muqatil and Kalbi say that it was partly revealed at Makkah and partly at Madinah. Hadrat Abdullah Bin Abbas (ALLAH Bless Him) and Ata Bin Yasar (ALLAH Bless Him) say that Verse No. 1-13 were revealed at Makkah and Verse No. 14-18 at Madinah. But the majority of commentators regard the whole of the surah as a Madinan Revelation. Although there is no internal evidence to help determine its exact period of revelation, yet a study of its subject matter shows that it might probably have been sent down at an early stage at Madinah. That is why it partly resembles the Makkah surahs and partly the Madinan Surahs.
زمانۂ نزول
مقاتل اور کلبی کہتےہیں کہ اس کا کچھ حصہ مکی ہے اور کچھ مدنی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس اور عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ابتدا سے آیت 13 تک مکی ہے اور آیت 14 سے آخر سورت تک مدنی مگر مفسرین کی اکثریت پوری سورت کو مدنی قرار دیتی ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی اشارہ ایسا نہیں پایا جاتا جس سے اس کا زمانۂ نزول متعین کیا جا سکتا ہو، لیکن مضمونِ کلام پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً یہ مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہوگی۔ اسی وجہ سے اس میں کچھ رنگ مکی سورتوں کا سا اور کچھ مدنی سورتوں کا سا پایا جاتا ہے۔
Theme and Subject Matter
The theme of this surah is invitation to the Faith and obedience (To ALLAH) and the teaching of good morals. The sequence followed is that the first four Verses are addressed to all men; Verses 5-10 to those men, who do not believe in the invitation of the Qur'an; and Verses 11-18 to those who accept and believe in this invitation.
In the verses addressed to all men, they have been made aware in a few brief sentences of the four fundamental truths:
Then, addressing those who adopt the way of the Faith, a few important instructions have been given:
In the verses addressed to all men, they have been made aware in a few brief sentences of the four fundamental truths:
- First, that the universe in which they live is not Godless, but its Creator, Master and Ruler is an All Powerful God, and everything in it testifies to His being most Perfect and absolutely faultless.
- Second, that the universe is not without purpose and wisdom, but its Creator has created it with truth no one should be under the delusion that it is a mock show, which began without a purpose and will come to an end without a purpose.
- Third, that the excellent form that God has created you with and the choice that He has given you to choose between belief and unbelief is not a useless and meaningless activity so that it may be of no consequence whether you choose belief or unbelief. In fact, God is watching as to how you exercise your choice.
- Fourth, that you have not been created irresponsible and un-answerable. You have to return ultimately to your Creator, and have to meet the Being who is aware of everything in the universe, from Whom nothing is hidden, to Whom even the innermost thoughts of the minds are known.
- First, that they refused to believe in the Messengers whom He sent for their guidance, with the result that ALLAH too left them to themselves, and they invented their own philosophies of life and went on groping their way from one error to another.
- Second, that they also, rejected the doctrine of Hereafter, and thought this worldly life to be an end in itself, and that there was no life hereafter when they would have to render an account of their deeds before God. This corrupted their whole attitude towards life, and their impure morals and character so polluted the world that eventually the scourge of God itself had to descend and eliminate them from the scene.
Then, addressing those who adopt the way of the Faith, a few important instructions have been given:
- First, that whatever affliction befalls a person in the world, it befalls him by ALLAH's leave. Whoever in this state of affliction remains steadfast to the Faith, ALLAH blesses his heart with guidance; otherwise although the affliction of the one who in confusion or bewilderment turns away from the path of the Faith, cannot be averted except by ALLAH's leave, yet he becomes involved in another, the greatest affliction of all, namely that his heart is deprived of the guidance of ALLAH.
- Secondly, that the believer is not required to affirm the faith with the tongue only, but after the affirmation of the Faith he should practically obey ALLAH and His Messenger. If he turns away from obedience he would himself be responsible for his loss, for the Holy Messenger of ALLAH (Peace Be Upon Him) has become absolved from the responsibility after having delivered the message of Truth.
- Thirdly, that the believer should place his trust in ALLAH alone and not in his own power or some other power of the world.
- Fourthly, that the worldly goods and children are a great trial and temptation for the believer, for it is their love which generally distracts man from the path of faith and obedience. Therefore, the believers have to beware some of their children, and wives lest they become robbers for them on the Way of God directly or indirectly; and they should spend their wealth for the sake of God so that their self remains safe against the temptations of Satan.
- Fifthly, that every man is responsible only to the extent of his power and ability. ALLAH does not demand that man should exert himself beyond his power and ability. However, the believer should try his best to live in fear of God as far as possible, and should see that he does not transgress the bounds set by ALLAH in his speech, conduct and dealings through his own negligence.
موضوع اور مضمون
اس سورہ کا موضوع ایمان و طاعت کی دعوت اور اخلاق حسنہ کی تعلیم ہے۔ کلام کی ترتیب یہ ہے کہ پہلی چار آیتوں کا خطاب تمام انسانوں سے ہے ، پھر آیت 5 سے 10 تک ان لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے جو قرآن کی دعوت کو نہیں مانتے ، اور اس کے بعد نمبر 11 سے آخر تک کی آیات کا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اس دعوت کو مانتے ہیں۔
تمام انسانوں کو خطاب کر کے چند مختصر فقروں میں انہیں چار بنیادی حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے
اول یہ کہ یہ کائنات، جس میں تم رہتے ہو، بے خدا نہیں ہے بلکہ اس کا خالق اور مالک اور فرمانروا ایک ایسا قادر مطلق خدا ہے جس کے کامل اور بے عیب ہونے کی شہادت اس کائنات کی ہر چیز دے رہی ہے۔
دوسرے یہ کہ یہ کائنات بے مقصد اور بے حکمت نہیں ہے بلکہ اس کے خالق نے اسے سراسر بر حق پیدا کیا ہے۔ یہاں اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ یہ ایک فضول تماشا ہے جو عبث ہی شروع ہوا اور عبث ہی ختم ہو جائے گا۔
تیسرے یہ کہ تمہیں جس بہترین صورت کے ساتھ خدا نے پیدا کیا ہے اور پھر جسطرح کفر و ایمان کا اختیار تم پر چھوڑ دیا ہے ، یہ کوئی لا حاصل اور لایعنی کام نہیں ہے کہ تم خواہ کفر اختیار کرو یا ایمان، دونوں صورتوں میں اس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہو۔ در اصل خدا یہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کوکس طرح استعمال کرتے ہو۔
چوتھے یہ کہ تم غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ نہیں ہو۔ آخر کار تمہیں اپنے خالق کی طرف پلٹ کر جانا ہے اور اس ہستی سے تمہیں سابقہ پیش آنا ہے جو کائنات کی ہر چیز سے واقف ہے ، جس سے تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں ، جس پر دلوں کے چھپے ہوئے خیالات تک روشن ہیں۔
کائنات اور انسان کی حقیقت کے بارے میں یہ چار بنیادی باتیں بیان کرنے کے بعد کلام کا رخ ان لوگوں کی طرف مڑتا ہے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ، اور انہیں تاریخ کے اس منظر کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جو پوری انسانی تاریخ میں مسلسل نظر آتا ہے کہ قوموں پر قومیں اٹھتی ہیں اور بالآخر تباہی سے دوچار ہوتی ہیں۔ انسان اپنی عقل سے اس منظر کی ہزار توجہیں کرتا رہا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ اصل حقیقت بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قوموں کی تباہی کے بنیادی اسباب صرف دو تھے
ایک یہ کہ اس نے جن رسولوں کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا، ان کی بات ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ خود ہی اپنے فلسفے گھڑ گھڑ کر ایک گمراہی سے دوسری گمراہی میں بھٹکتی چلی گئیں۔
دوسرے یہ کہ انہوں نے آخرت کے عقیدے کو بھی رد کر دیا اور اپنے زعم میں یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ہے جس یہی دنیا کی زندگی ہے ، اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے جس میں ہی اپنے خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہو۔ اس چیز نے ان کے پورے رویہ زندگی کو بگاڑ کر رکھ دیا اور ان کے اخلاق و کردار کی گندگی اس حد تک بڑھتی چلی گئی کہ آخر کار خدا کے عذاب ہی نے آ کر دنیا کو ان کے وجود سے پاک کیا۔
تاریخ انسانی کے یہ دو سبق آموز حقائق بیان کر کے منکرین حق کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ہوش میں آئیں اور اگر پچھلی قوموں کا سا انجام نہیں دیکھنا چاہتے تو اللہ اور اس کے رسول اور اس نور ہدایت پر ایمان لے آئیں جو اللہ نے قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ان کو خبردار کیا جاتا ہے کہ آخر کار وہ دن آنے والا ہے جب تمام اولین و آخرین ایک جگہ جمع کیے جائیں گے اور تم میں سے ہر ایک کا غبن سب کے سامنے کھل جائےگا۔ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام انسانوں کی قسمت کا فیصلہ اسی بنیاد پر کیا جائے گا کہ ایمان و عمل صالح کی راہ کس نے اختیار کی تھی، اور کفر و تکذیب کی رہ پر کون چلا تھا۔ پہلا گروہ ابدی جنت کا حق دار ہو گا اور دوسرے گروہ کے حصے میں دائمی جہنم آئے گی۔
اس کے بعد ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کو مخاطب کر کے چند اہم ہدایات انہیں دی جاتی ہیں :
ایک یہ کہ دنیا میں جو مصیبت بھی آتی ہے ، اللہ کے اذن سے آتی ہے۔ ایسے حالات میں جو شخص ایمان پر ثابت قدم رہے ، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے ، ورنہ گھبراہٹ یا جھنجلاہٹ میں مبتلا ہو کر جو آدمی ایمان کی راہ سے ہٹ جائے، اس کی مصیبت تو اللہ کے اذن کے بغیر دور نہیں ہو سکتی، البتہ وہ ایک اور مصیبت، جو سب سے بڑی مصیبت ہے ، مول لے لیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کی ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔ '
دوسرے یہ کہ مومن کا کام صرف ایمان لے آنا ہی نہیں ہے بلکہ ایمان لانے کے بعد اسے عملاً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ اطاعت سے اگر وہ رو گردانی اختیار کرے گا تو اپنے نقصان کا وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ کیونکہرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حق پہنچا کر بری الذمہ ہو چکے ہیں۔
تیسرے یہ کہ مومن کا اعتماد اپنی طاقت یا دنیا کی کسی طاقت پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر ہونا چاہیے۔
چوتھے یہ کہ مومن کے لیے اس کا مال اور اس کے اہل و عیال ایک بہت بڑی آزمائش ہیں کیونکہ زیادہ تر انہی کی محبت انسان کو ایمان و طاعت کی راہ سے منحرف کرتی ہے۔ اس لیے اہل ایمان کو اپنے اہل و عیال سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کے حق میں راہ خدا کے رہزن نہ بننے پائیں ، اور انہیں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے تاکہ ان کا جنس زر پر ستی کے فتنوں سے محفوظ رہے۔
پانچویں یہ کہ ہر انسان اپنی استطاعت کی حد تک ہی مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کرے۔ البتہ مومن کو جس بات کی کوشش کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اپنی حد تک خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے میں وہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھے اور اس کی گفتار، کردار اور معاملات اس کی اپنی کوتاہی کے باعث حدود اللہ سے متجاوز نہ ہو جائیں۔
تمام انسانوں کو خطاب کر کے چند مختصر فقروں میں انہیں چار بنیادی حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے
اول یہ کہ یہ کائنات، جس میں تم رہتے ہو، بے خدا نہیں ہے بلکہ اس کا خالق اور مالک اور فرمانروا ایک ایسا قادر مطلق خدا ہے جس کے کامل اور بے عیب ہونے کی شہادت اس کائنات کی ہر چیز دے رہی ہے۔
دوسرے یہ کہ یہ کائنات بے مقصد اور بے حکمت نہیں ہے بلکہ اس کے خالق نے اسے سراسر بر حق پیدا کیا ہے۔ یہاں اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ یہ ایک فضول تماشا ہے جو عبث ہی شروع ہوا اور عبث ہی ختم ہو جائے گا۔
تیسرے یہ کہ تمہیں جس بہترین صورت کے ساتھ خدا نے پیدا کیا ہے اور پھر جسطرح کفر و ایمان کا اختیار تم پر چھوڑ دیا ہے ، یہ کوئی لا حاصل اور لایعنی کام نہیں ہے کہ تم خواہ کفر اختیار کرو یا ایمان، دونوں صورتوں میں اس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہو۔ در اصل خدا یہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کوکس طرح استعمال کرتے ہو۔
چوتھے یہ کہ تم غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ نہیں ہو۔ آخر کار تمہیں اپنے خالق کی طرف پلٹ کر جانا ہے اور اس ہستی سے تمہیں سابقہ پیش آنا ہے جو کائنات کی ہر چیز سے واقف ہے ، جس سے تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں ، جس پر دلوں کے چھپے ہوئے خیالات تک روشن ہیں۔
کائنات اور انسان کی حقیقت کے بارے میں یہ چار بنیادی باتیں بیان کرنے کے بعد کلام کا رخ ان لوگوں کی طرف مڑتا ہے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ، اور انہیں تاریخ کے اس منظر کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جو پوری انسانی تاریخ میں مسلسل نظر آتا ہے کہ قوموں پر قومیں اٹھتی ہیں اور بالآخر تباہی سے دوچار ہوتی ہیں۔ انسان اپنی عقل سے اس منظر کی ہزار توجہیں کرتا رہا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ اصل حقیقت بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قوموں کی تباہی کے بنیادی اسباب صرف دو تھے
ایک یہ کہ اس نے جن رسولوں کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا، ان کی بات ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ خود ہی اپنے فلسفے گھڑ گھڑ کر ایک گمراہی سے دوسری گمراہی میں بھٹکتی چلی گئیں۔
دوسرے یہ کہ انہوں نے آخرت کے عقیدے کو بھی رد کر دیا اور اپنے زعم میں یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ہے جس یہی دنیا کی زندگی ہے ، اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے جس میں ہی اپنے خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہو۔ اس چیز نے ان کے پورے رویہ زندگی کو بگاڑ کر رکھ دیا اور ان کے اخلاق و کردار کی گندگی اس حد تک بڑھتی چلی گئی کہ آخر کار خدا کے عذاب ہی نے آ کر دنیا کو ان کے وجود سے پاک کیا۔
تاریخ انسانی کے یہ دو سبق آموز حقائق بیان کر کے منکرین حق کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ہوش میں آئیں اور اگر پچھلی قوموں کا سا انجام نہیں دیکھنا چاہتے تو اللہ اور اس کے رسول اور اس نور ہدایت پر ایمان لے آئیں جو اللہ نے قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ان کو خبردار کیا جاتا ہے کہ آخر کار وہ دن آنے والا ہے جب تمام اولین و آخرین ایک جگہ جمع کیے جائیں گے اور تم میں سے ہر ایک کا غبن سب کے سامنے کھل جائےگا۔ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام انسانوں کی قسمت کا فیصلہ اسی بنیاد پر کیا جائے گا کہ ایمان و عمل صالح کی راہ کس نے اختیار کی تھی، اور کفر و تکذیب کی رہ پر کون چلا تھا۔ پہلا گروہ ابدی جنت کا حق دار ہو گا اور دوسرے گروہ کے حصے میں دائمی جہنم آئے گی۔
اس کے بعد ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کو مخاطب کر کے چند اہم ہدایات انہیں دی جاتی ہیں :
ایک یہ کہ دنیا میں جو مصیبت بھی آتی ہے ، اللہ کے اذن سے آتی ہے۔ ایسے حالات میں جو شخص ایمان پر ثابت قدم رہے ، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے ، ورنہ گھبراہٹ یا جھنجلاہٹ میں مبتلا ہو کر جو آدمی ایمان کی راہ سے ہٹ جائے، اس کی مصیبت تو اللہ کے اذن کے بغیر دور نہیں ہو سکتی، البتہ وہ ایک اور مصیبت، جو سب سے بڑی مصیبت ہے ، مول لے لیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کی ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔ '
دوسرے یہ کہ مومن کا کام صرف ایمان لے آنا ہی نہیں ہے بلکہ ایمان لانے کے بعد اسے عملاً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ اطاعت سے اگر وہ رو گردانی اختیار کرے گا تو اپنے نقصان کا وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ کیونکہرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حق پہنچا کر بری الذمہ ہو چکے ہیں۔
تیسرے یہ کہ مومن کا اعتماد اپنی طاقت یا دنیا کی کسی طاقت پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر ہونا چاہیے۔
چوتھے یہ کہ مومن کے لیے اس کا مال اور اس کے اہل و عیال ایک بہت بڑی آزمائش ہیں کیونکہ زیادہ تر انہی کی محبت انسان کو ایمان و طاعت کی راہ سے منحرف کرتی ہے۔ اس لیے اہل ایمان کو اپنے اہل و عیال سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کے حق میں راہ خدا کے رہزن نہ بننے پائیں ، اور انہیں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے تاکہ ان کا جنس زر پر ستی کے فتنوں سے محفوظ رہے۔
پانچویں یہ کہ ہر انسان اپنی استطاعت کی حد تک ہی مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کرے۔ البتہ مومن کو جس بات کی کوشش کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اپنی حد تک خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے میں وہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھے اور اس کی گفتار، کردار اور معاملات اس کی اپنی کوتاہی کے باعث حدود اللہ سے متجاوز نہ ہو جائیں۔
Sura With Tafsir and Translation
64:Sura At-Taghabun In Urdu | |
File Size: | 1271 kb |
File Type: |
64:Sura At-Taghabun In English | |
File Size: | 248 kb |
File Type: |