Sura Al-Anbiya
Introduction
Sura Al-Anbiya (Arabic: سورة الأنبياء,"The Prophets") is the 21st sura of the Qur'an in 17th part (Juz) of the Quran with 112 ayat.
تعارف
سورہ الانبیاء (الانبیاء جمع ہے نبی کی )قرآن مجید کی 21 ویں سورت جو 17 پارے کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکی زندگی کے درمیانی دور میں نازل ہوئی۔ اس سورت میں 112 آیات اور 7 رکوع ہیں۔
Name
The name of this Surah has not been taken from any Verse but it has been called Al-Anbiyaa because it contains a continuous account of many Anbiyaa (Prophets). Nevertheless, it is a symbolic name and not a title.
نام
اس سورت کا نام کسی خاص آیت سے ماخوذ نہیں ہے ۔ چونکہ اس میں مسلسل بہت سے انبیاء کا ذکر آیا ہے ، اس لیے اس کا نام ’’ الانبیاء‘‘ رکھ دیا گیا۔ یہ بھی موضوع کے لحاظ سے سورۃ کا عنوان نہیں ہے بلکہ محض پہچاننے کے لیے ایک علامت ہے
Period of Revelation
Both the subject matter and the style of the Surah indicate that it was sent down in the third stage of the life of the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) at Makkah.
(See Introduction to Sura No 6).
(See Introduction to Sura No 6).
زمانہ نزول
مضمون اور انداز بیان، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط یعنی ہماری تقسیم کے لحاظ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکی زندگی کا تیسرا دور ہے ۔ اس کے پس منظر میں حالات کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو آخری دور کی سورتوں میں نمایا ں طور پر محسوس ہوتی ہے
Subject,Topics & Main Themes
This Surah discusses the conflict between the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) and the chiefs of Makkah, which was rampant at the time of its Revelation and answers those objections and doubts which were being put forward concerning his Prophethood and the Doctrines of Tauhid and the Hereafter. The chiefs of Makkah have also been rebuked for their machinations against the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) and warned of the evil consequences of their wicked activities. They have been admonished to give up their indifference and heedlessness that they were showing about the Message. At the end of the Surah, they have been told that the person whom they considered to be a "Distress and affliction" had in reality come to them as a blessing.
Main Theme
In Verse No. 1-47, the following themes have been discussed in particular :
Along with these two other things have also been mentioned:
In Verse. 107-112, the people have been told that it is a great favor of ALLAH that He has sent His Messenger to inform them beforehand of this Reality and that those, who consider his coming to be an affliction instead of a blessing, are foolish people.
Main Theme
In Verse No. 1-47, the following themes have been discussed in particular :
- The objection of the disbelievers that a human being could not be a Messenger and therefore they could not accept Mohammad (Peace Be Upon Him) as a Prophet, has been refuted.
- They have been taken to task for raising multifarious and contradictory objections against the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) and the Qur'an.
- Their wrong conception of life has been proved to be false because it was responsible for their indifferent and heedless attitude towards the Message of the Holy Prophet (Peace Be Upon Him). They believed that life was merely a sport and pastime and had no purpose behind or before it and there was no accountability or reward or punishment.
- The main cause of the conflict between the disbelievers and the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) was their insistence on the doctrine of shirk and antagonism to the Doctrine of Tauhid. So the doctrine of skirk has been refuted and the Doctrine of Tauhid reinforced by weighty and impressive though brief arguments.
- Arguments and admonitions have been used to remove another misunderstanding of theirs. They presumed that Mohammad (Peace Be Upon Him) was a false prophet and his warnings of a scourge from God were empty threats, just because no scourge was visiting them in spite of their persistent rejection of the Prophet.
Along with these two other things have also been mentioned:
- All the Prophets had to pass through distress and affliction; their opponents did their worst to thwart their mission, but in spite of it they came out successful by the extraordinary succor from ALLAH.
- All the Prophets had one and the same "Way of life', the same as was being presented by Mohammad (Peace Be Upon Him), and that was the only Right Way of Life and all other ways invented and introduced by mischievous people were utterly wrong.
In Verse. 107-112, the people have been told that it is a great favor of ALLAH that He has sent His Messenger to inform them beforehand of this Reality and that those, who consider his coming to be an affliction instead of a blessing, are foolish people.
موضوع و مضمون
اس سورہ میں ہو کشمکش زیر بحث ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سرداران قریش کے درمیان برپا تھی ۔ وہ لوگ آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دعوائے رسالت اور آپ کی دعوت توحید و عقیدہ آخرت پر جو شکوک اور اعتراضات پیش کرتے تھے ان کا جواب دیا گیا ہے ۔ انکی طرف سے آپ کی مخالفت میں جو چالیں چلی جا رہی تھیں ان پر زجر و توبیخ کی گئی ہے اور ان حرکتوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے ۔ وہ جس غفلت اور بے پروائی سے آپ کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے اس پر متنبہ کیا گیا ہے ۔ اور آخر میں ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس شخص کو تم اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھ رہے ہو وہ در اصل تمہارے لیے رحمت بن کر آیا ہے ۔ دوران تقریر میں خاص طور پر جو امور زیر بحث آئے ہیں وہ یہ ہیں
کفار مکہ کی یہ غلط فہمی کہ بشر کبھی رسول نہیں ہو سکتا اور اس بنا پر ان کا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رسول ماننے سے انکار کرنا ۔۔۔۔۔ اس کا بڑی تفصیل کے ساتھ رد کیا گیا ہے ۔
ان کا آپ پر اور قرآن پر مختلف اور متضاد قسم کے اعتراضات کرنا اور کسی ایک بات پر نہ جمنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر مختصر مگر نہایت پر زور اور معنی خیز طریقے سے گرفت کی گئی ہے ۔
ان کا یہ تصور کہ زندگی بس ایک کھیل ہے جسے چند روز کھیل کر یونہی ختم ہو جانا ہے ، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے ، کسی حساب کتاب اور جزا و سزا سے سابقہ نہیں پیش آنا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔یہ چیز چونکہ اس عجلت و بے اعتنائی کی اصل جڑ تھی جس کے ساتھ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے ، اس لیے بڑے ہی مؤثر انداز میں اس کا توڑ کیا گیا ہے ۔
شرک پر ان کا اصرار اور توحید کے خلاف ان کا جاہلانہ تعصب جوان کے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان اصل بنائے نزاع تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اصلاح کے لیے شرک کے خلاف اور توحید کے حق میں مختصر مگر بہت وزنی اور دلنشین دلائل دیے گئے ہیں ۔
ان کی یہ غلط فہمی کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بار بار جھٹلانے کے باوجود جب ان پر کوئی عذاب نہیں آتا تو ضرور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جھوٹا ہے اور عذاب الٰہی کی وہ وعیدیں جو وہ خدا کی طرف سے ہمیں سناتا ہے محض خالی خولی دھمکیاں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کو استدلال اور نصیحت ، دونوں طریقوں سے رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
اس کے بعد انبیاء الیہم السلام کی سیرتوں کے اہم واقعات سے چند نظیریں پیش کی گئی ہیں جن سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تمام وہ پیغمبر جو انسانی تاریخ کے دورا ن میں خدا کی طرف سے آئے تھے تھے ، انسان تھے اور نبوت کے امتیازی وصف کو چھوڑ کر دوسری صفات میں وہ ویسے ہی انسان ہوتے تھے جیسے دنیا کے عام انسان ہوا کرتے ہیں ۔ اُلوہیت اور خدائی کا ان میں شائبہ تک نہ بتھا بلکہ اپنی ہر ضرورت کے لیے وہ خود خدا کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے ۔ اس اس کے ساتھ انہی تاریخی نظیروں سے دو باتیں اور بھی واضح کی گئی ہیں ۔
ایک یہ کہ انبیاء پر طرح طرح کے مصائب آئے ہیں ، اور ان کے مخالفین نے بھی ان کو برباد کرنے کی کوششںا کی ہیں ، مگر آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طریقوں پر ان کی نصرت فرمائی گئی ہے ۔
دوسرے یہ کہ تمام انبیاء کا دین ایک تھا اور وہ وہی دین تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیش کر رہے ہیں ۔ نوع انسانی کا اصل دین یہی ہے ، اور باقی جتنے مذاہب دنیا میں بنے ہیں وہ محض گمراہ انسانوں کے ڈالے ہوئے تفرقے ہیں ۔
آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی نجات کا انحصار اسی دین کی پیروی اختیار کرنے پر ہے ۔ جو لوگ اسے قبول کریں گے وہی خدا کی آخری عدالت سے کامیاب نکلیں گے ور زمین کے وارث ہوں گے ۔اور جو لوگ اسے رد کر دیں گے وہ آخرت میں بد ترین انجام سے دوچار ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی مہربانی ہے کہ وہ فیصلے کے وقت سے پہلے اپنے نبی کے ذریعہ سے لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا ہے ۔ نادان ہیں وہ لوگ جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد کو اپنے لیے رحمت کے بجائے زحمت سمجھ رہے ہیں ۔
کفار مکہ کی یہ غلط فہمی کہ بشر کبھی رسول نہیں ہو سکتا اور اس بنا پر ان کا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رسول ماننے سے انکار کرنا ۔۔۔۔۔ اس کا بڑی تفصیل کے ساتھ رد کیا گیا ہے ۔
ان کا آپ پر اور قرآن پر مختلف اور متضاد قسم کے اعتراضات کرنا اور کسی ایک بات پر نہ جمنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر مختصر مگر نہایت پر زور اور معنی خیز طریقے سے گرفت کی گئی ہے ۔
ان کا یہ تصور کہ زندگی بس ایک کھیل ہے جسے چند روز کھیل کر یونہی ختم ہو جانا ہے ، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے ، کسی حساب کتاب اور جزا و سزا سے سابقہ نہیں پیش آنا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔یہ چیز چونکہ اس عجلت و بے اعتنائی کی اصل جڑ تھی جس کے ساتھ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے ، اس لیے بڑے ہی مؤثر انداز میں اس کا توڑ کیا گیا ہے ۔
شرک پر ان کا اصرار اور توحید کے خلاف ان کا جاہلانہ تعصب جوان کے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان اصل بنائے نزاع تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اصلاح کے لیے شرک کے خلاف اور توحید کے حق میں مختصر مگر بہت وزنی اور دلنشین دلائل دیے گئے ہیں ۔
ان کی یہ غلط فہمی کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بار بار جھٹلانے کے باوجود جب ان پر کوئی عذاب نہیں آتا تو ضرور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جھوٹا ہے اور عذاب الٰہی کی وہ وعیدیں جو وہ خدا کی طرف سے ہمیں سناتا ہے محض خالی خولی دھمکیاں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کو استدلال اور نصیحت ، دونوں طریقوں سے رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
اس کے بعد انبیاء الیہم السلام کی سیرتوں کے اہم واقعات سے چند نظیریں پیش کی گئی ہیں جن سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تمام وہ پیغمبر جو انسانی تاریخ کے دورا ن میں خدا کی طرف سے آئے تھے تھے ، انسان تھے اور نبوت کے امتیازی وصف کو چھوڑ کر دوسری صفات میں وہ ویسے ہی انسان ہوتے تھے جیسے دنیا کے عام انسان ہوا کرتے ہیں ۔ اُلوہیت اور خدائی کا ان میں شائبہ تک نہ بتھا بلکہ اپنی ہر ضرورت کے لیے وہ خود خدا کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے ۔ اس اس کے ساتھ انہی تاریخی نظیروں سے دو باتیں اور بھی واضح کی گئی ہیں ۔
ایک یہ کہ انبیاء پر طرح طرح کے مصائب آئے ہیں ، اور ان کے مخالفین نے بھی ان کو برباد کرنے کی کوششںا کی ہیں ، مگر آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طریقوں پر ان کی نصرت فرمائی گئی ہے ۔
دوسرے یہ کہ تمام انبیاء کا دین ایک تھا اور وہ وہی دین تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیش کر رہے ہیں ۔ نوع انسانی کا اصل دین یہی ہے ، اور باقی جتنے مذاہب دنیا میں بنے ہیں وہ محض گمراہ انسانوں کے ڈالے ہوئے تفرقے ہیں ۔
آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی نجات کا انحصار اسی دین کی پیروی اختیار کرنے پر ہے ۔ جو لوگ اسے قبول کریں گے وہی خدا کی آخری عدالت سے کامیاب نکلیں گے ور زمین کے وارث ہوں گے ۔اور جو لوگ اسے رد کر دیں گے وہ آخرت میں بد ترین انجام سے دوچار ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی مہربانی ہے کہ وہ فیصلے کے وقت سے پہلے اپنے نبی کے ذریعہ سے لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا ہے ۔ نادان ہیں وہ لوگ جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد کو اپنے لیے رحمت کے بجائے زحمت سمجھ رہے ہیں ۔
Sura With Tafsir and Translation
21:Sura Al-Anbiya In English | |
File Size: | 670 kb |
File Type: |