Sura Al-Hajj
Introduction
Sura Al-Hajj (Arabic: سورة الحج ) (The Pilgrimage, The Hajj) is the 22nd sura of the Qur'an in 17th part (Juz) of the Quran with 78 ayat.It is a Medinan sura.Sura Al-Hajj have prostrations (Sajda-e-Tilawat) in Ayat 18 and Ayat 77 (Shafi).
تعارف
سورہ الحج, قرآن مجید کی 22 ویں سورت جو قرآن کے 17ویں پارہ میں ہے. سورہ الحج مدنی سورہ ہے.اس میں 10 رکوع اور 78 آیات ہیں.سورہ الحج کی آیت 18 (اور 77 شافعی کے مطابق) میں سجدہ تلاوت ہے
Name
This Surah takes its name from Verse. 27 (Arabic:وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ).
نام
چوتھے رکوع کی دوسری آیت وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ سے ماخوذ ہے
Period of Revelation
As this Surah contains the characteristics of both the Makki and the Madani Surahs, the commentators have differed as to its period of revelation, but in the light of its style and themes we are of the opinion that a part of it (Verse No. 1-24) was sent down in the last stage of the Makki life of the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) a little before migration and the rest (Verse No. 25-78) during the first stage of his Madani life. That is why this Surah combines the characteristics of both the Makki and the Madani Surahs.
The sudden change of the style from Verse No. 25 shows that probably Verse No. 25-78 were sent down in the month of Zul-Hijjah in the very first year after Hijrah. This is indicated by Verse No. 25-41 and confirmed by the occasion of the revelation of Verse No. 39-40. It appears that the month of Zul-Hijjah must have brought to the immigrants nostalgic memories of their homes in Makkah and naturally they must have thought of their Sacred City and of their Hajj congregation there, and grieved to think that the mushrik Quraish had debarred them from visiting the Sacred Mosque. Therefore, they might even have been praying for and expecting Divine permission to wage war against those tyrants who had expelled them from their homes and deprived them of visiting the House of ALLAH and made it difficult for them to follow the way of Islam. It was at this psychological occasion that these Verses were sent down. That is why the purpose for which Masjid-al- Haram was built has been specifically mentioned. It has been made plain that Hajj (Pilgrimage) had been enjoined for the worship of One ALLAH. But it is an irony that afterwards it had been dedicated to the rituals of shirk and the worshipers of One ALLAH had been debarred from visiting it. Therefore, permission for waging war against those tyrants has been given to oust them from there and to establish the righteous way of life for establishing virtue and eradicating evil. According to Ibn Abbas, Mujahid, Urwah bin Zubair, Zaid bin Aslam, Muqatil bin Hayyan, Qatadah (ALLAH Bless With Them All) and other great commentators, Verse. 39 is the first Verse that grants the Muslims permission to wage war. Collections of Hadith and books on the life of the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) confirm that after this permission actual preparations for war were started and the first expedition was sent to the coast of the Red Sea in Safar 2st Hijri, which is known as the Expedition of Waddan or Al- Abwa.
The sudden change of the style from Verse No. 25 shows that probably Verse No. 25-78 were sent down in the month of Zul-Hijjah in the very first year after Hijrah. This is indicated by Verse No. 25-41 and confirmed by the occasion of the revelation of Verse No. 39-40. It appears that the month of Zul-Hijjah must have brought to the immigrants nostalgic memories of their homes in Makkah and naturally they must have thought of their Sacred City and of their Hajj congregation there, and grieved to think that the mushrik Quraish had debarred them from visiting the Sacred Mosque. Therefore, they might even have been praying for and expecting Divine permission to wage war against those tyrants who had expelled them from their homes and deprived them of visiting the House of ALLAH and made it difficult for them to follow the way of Islam. It was at this psychological occasion that these Verses were sent down. That is why the purpose for which Masjid-al- Haram was built has been specifically mentioned. It has been made plain that Hajj (Pilgrimage) had been enjoined for the worship of One ALLAH. But it is an irony that afterwards it had been dedicated to the rituals of shirk and the worshipers of One ALLAH had been debarred from visiting it. Therefore, permission for waging war against those tyrants has been given to oust them from there and to establish the righteous way of life for establishing virtue and eradicating evil. According to Ibn Abbas, Mujahid, Urwah bin Zubair, Zaid bin Aslam, Muqatil bin Hayyan, Qatadah (ALLAH Bless With Them All) and other great commentators, Verse. 39 is the first Verse that grants the Muslims permission to wage war. Collections of Hadith and books on the life of the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) confirm that after this permission actual preparations for war were started and the first expedition was sent to the coast of the Red Sea in Safar 2st Hijri, which is known as the Expedition of Waddan or Al- Abwa.
زمانۂ نزول
اس سورے میں مکی اور مدنی سورتوں کی خصوصیات ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے مفسریں میں اس امر پر اختلاف ہوا ہے کہ یہ مکی ہے کہ مدنی۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کے مضامین اور انداز بیان کا یہ رنگ اس وجہ سے ہے کہ اس کا ایک حصہ مکی دور کے آخر میں اور دوسرا حصہ مدنی دور کے آغاز میں نازل ہوا ہے۔ اس لیے دونوں ادوار کی خصوصیات اس میں جمع ہو گئی ہیں۔
ابتدائی حصے کا مضمون اور انداز بیان صاف بتاتا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوا ہے اور اغلب یہ ہے کہ مکہ زندگی کے آخری دور میں ہجرت سے کچھ پہلے نازل ہوا ہو۔ یہ حصہ آیت 24 (وَھُدُوْ آ اِلَی الظَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓ اِلیٰ صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ) پر ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا وَیَصُدُّ وْ نَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ سے یک لخت مضمون کا رنگ بدل جاتا ہے اور صاف محسو ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر تک کا حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال ذی الحجہ میں نازل ہوا ہو، کیونکہ آیت 25 سے 41 تک کا مضمون اسی بات کی نشان دہی کرتا ہے ، اور آیت 39۔ 40 کی شان نزول بھی اس کی مؤید ہے۔ اس وقت مہاجرین ابھی تازہ تازہ ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے میں آئے تھے۔ حج کے زمانے میں ان کو اپنا شہر اور حج کا اجتماع یاد آ رہا ہو گا اور یہ بات بری طرح کھل رہی ہو گی کہ مشرکین قریش نے ان پر مسجد حرام کا راستہ تک بند کر دیا ہے۔ اس زمانے میں وہ اس بات کے بھی منتظر ہوں گے کہ جن ظالموں نے ان کو گھروں سے نکالا ، مسجد حرام کی زیارت سے محروم کیا ، اور خدا کا راستہ اختیار کرنے پر ان کی زندگی تک دشوار کر دی ، ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت مل جائے۔ یہ ٹھیک نفسیاتی موقع تھا ان آیات کے نزول کا۔ ان میں پہلے تو حج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسجد حرام اس لیے بنائی گئی تھی اور یہ حج کا طریقہ اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ دنیا میں کدائے واحد کی بندگی کی جائے، مگر آج وہاں شرک ہو رہا ہے اور خدائے واحد کی بندگی کرنے والوں کے لیے اس کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان ظالموں کے خلاف جنگ کریں اور انہیں بے دخل کر کے ملک میں وہ نظام صالح قائم کریں جس میں برائیاں دبںا اور نیکیاں فروغ پائیں۔ ابن عباس ، مجاہد ، عَرْوَہ بن زُبَیر ، زید بن اسلم، مقاتل بن حیان ، قَآتَدہ رضوان اللہ اجمعین اور دوسرے اکابر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی۔ اور حدیث و سیرت کی روایات سے ثابت ہے کہ اس اجازت کے بعد فوراً ہی قریش کے خلاف عملی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اور پہلی مہم صفر 2 ھ میں ساحل بحر احمر کی طرف روانہ ہوئی جو غزوہ ود ان یا غزوہ اَبَواء کے نام سے مشہور ہے۔
ابتدائی حصے کا مضمون اور انداز بیان صاف بتاتا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوا ہے اور اغلب یہ ہے کہ مکہ زندگی کے آخری دور میں ہجرت سے کچھ پہلے نازل ہوا ہو۔ یہ حصہ آیت 24 (وَھُدُوْ آ اِلَی الظَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓ اِلیٰ صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ) پر ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا وَیَصُدُّ وْ نَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ سے یک لخت مضمون کا رنگ بدل جاتا ہے اور صاف محسو ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر تک کا حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال ذی الحجہ میں نازل ہوا ہو، کیونکہ آیت 25 سے 41 تک کا مضمون اسی بات کی نشان دہی کرتا ہے ، اور آیت 39۔ 40 کی شان نزول بھی اس کی مؤید ہے۔ اس وقت مہاجرین ابھی تازہ تازہ ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے میں آئے تھے۔ حج کے زمانے میں ان کو اپنا شہر اور حج کا اجتماع یاد آ رہا ہو گا اور یہ بات بری طرح کھل رہی ہو گی کہ مشرکین قریش نے ان پر مسجد حرام کا راستہ تک بند کر دیا ہے۔ اس زمانے میں وہ اس بات کے بھی منتظر ہوں گے کہ جن ظالموں نے ان کو گھروں سے نکالا ، مسجد حرام کی زیارت سے محروم کیا ، اور خدا کا راستہ اختیار کرنے پر ان کی زندگی تک دشوار کر دی ، ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت مل جائے۔ یہ ٹھیک نفسیاتی موقع تھا ان آیات کے نزول کا۔ ان میں پہلے تو حج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسجد حرام اس لیے بنائی گئی تھی اور یہ حج کا طریقہ اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ دنیا میں کدائے واحد کی بندگی کی جائے، مگر آج وہاں شرک ہو رہا ہے اور خدائے واحد کی بندگی کرنے والوں کے لیے اس کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان ظالموں کے خلاف جنگ کریں اور انہیں بے دخل کر کے ملک میں وہ نظام صالح قائم کریں جس میں برائیاں دبںا اور نیکیاں فروغ پائیں۔ ابن عباس ، مجاہد ، عَرْوَہ بن زُبَیر ، زید بن اسلم، مقاتل بن حیان ، قَآتَدہ رضوان اللہ اجمعین اور دوسرے اکابر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی۔ اور حدیث و سیرت کی روایات سے ثابت ہے کہ اس اجازت کے بعد فوراً ہی قریش کے خلاف عملی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اور پہلی مہم صفر 2 ھ میں ساحل بحر احمر کی طرف روانہ ہوئی جو غزوہ ود ان یا غزوہ اَبَواء کے نام سے مشہور ہے۔
Subject Matter and Theme
This Surah is addressed to:
"You have obdurately and impudently persisted in your ideas of ignorance and trusted in your deities instead of ALLAH, though they possess no power at all and you have repudiated the Divine Messenger. Now you will meet the same end as has been the doom of those like you before. You have only harmed yourselves by rejecting Our Prophet and by persecuting the best element of your own community; now your false deities shall not be able to save you from the wrath of God".
At the same time, they have been admonished time and again for their creed of shirk and sound arguments have been given in favor of Tauhid and the Hereafter.
The wavering Muslims, who had embraced Islam but were not prepared to endure any hardship in its way, have been admonished to this effect:
"What is this faith of yours? On the one hand, you are ready to believe in ALLAH and become His servants provided you are given peace and prosperity but, on the other, if you meet with afflictions and hardships in His Way, you discard your ALLAH and cease to remain His servant. You should bear in mind that this wavering attitude of yours cannot avert those misfortunes and losses which ALLAH has ordained for you."
As regards the true Believers, they have been addressed in two ways:
In order to counteract the tyranny of the Quraish, the Muslims were allowed to fight with them. They were also given instructions to adopt the right and just attitude as and when they acquired power to rule in the land. Moreover, the Believers have been officially given the name of "Muslims", saying, "You are the real heirs to Abraham and you have been chosen to become witnesses of the Truth before mankind. Therefore you should establish salat and pay the zakat dues in order to become the best models of righteous life and perform Jihad for propagating the Word of ALLAH." (Verse No. 41,77, 78.)
It will be worth while to keep in view the introductions to Chapters II (Al-Baqarah) and VIII (Al Anfal).
- The mushriks of Makkah,
- The wavering Muslims, and
- The True Believers.
"You have obdurately and impudently persisted in your ideas of ignorance and trusted in your deities instead of ALLAH, though they possess no power at all and you have repudiated the Divine Messenger. Now you will meet the same end as has been the doom of those like you before. You have only harmed yourselves by rejecting Our Prophet and by persecuting the best element of your own community; now your false deities shall not be able to save you from the wrath of God".
At the same time, they have been admonished time and again for their creed of shirk and sound arguments have been given in favor of Tauhid and the Hereafter.
The wavering Muslims, who had embraced Islam but were not prepared to endure any hardship in its way, have been admonished to this effect:
"What is this faith of yours? On the one hand, you are ready to believe in ALLAH and become His servants provided you are given peace and prosperity but, on the other, if you meet with afflictions and hardships in His Way, you discard your ALLAH and cease to remain His servant. You should bear in mind that this wavering attitude of yours cannot avert those misfortunes and losses which ALLAH has ordained for you."
As regards the true Believers, they have been addressed in two ways:
- in a general way so as to include the common people of Arabia also, and
- in an exclusive way:
In order to counteract the tyranny of the Quraish, the Muslims were allowed to fight with them. They were also given instructions to adopt the right and just attitude as and when they acquired power to rule in the land. Moreover, the Believers have been officially given the name of "Muslims", saying, "You are the real heirs to Abraham and you have been chosen to become witnesses of the Truth before mankind. Therefore you should establish salat and pay the zakat dues in order to become the best models of righteous life and perform Jihad for propagating the Word of ALLAH." (Verse No. 41,77, 78.)
It will be worth while to keep in view the introductions to Chapters II (Al-Baqarah) and VIII (Al Anfal).
موضوع و مضمون
اس سورہ میں تین گروہ مخاطب ہیں۔ مشرکین مکہ، مذبذب اور متردد مسلمان، اور مومنین صادقین۔
مشرکین سے خطاب کی ابتدا مکے میں کی گئی اور مدینے میں اس کا سلسلہ پورا کیا گیا۔ اس خطاب میں ان کو پورے زور کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ تم نے ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے بے بنیاد جاہلانہ خا لات پر اصرار کیا، خدا کو چھوڑ کر ان معبودوں پر اعتماد کیا جن کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے ، اور خدا کے رسول کو جھٹلا دیا۔ اب تمہارا انجام وہی کچھ ہو کر رہے گا جو تم سے پہلے اس روش پر چلنے والوں کا ہو چکا ہے۔ نبی کو جھٹلا کر اور اپنی قوم کے صالح ترین عنصر کو نشانہ ستم بنا کر تم نے اپنی ہی کچھ بگاڑی۔ اس کے نتیجے میں خدا کا جو غضب تم پر نازل ہو گا اس سے تمہارے بناوٹی معبود تمہیں نہ بچا سکیں گے۔ اس تنبیہ و اِنذار کے ساتھ افہام و تفہیم کا پہلو بالکل خالی نہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ پوری سورۃ میں جگہ جگہ تذکیر اور نصیحت بھی ہے اور شرک کے خلاف اور توحید و آخرت کے حق میں مؤثر دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں۔
مذبذب مسلمان ، جو خدا کی بندگی قبول تو کر چکے تھے مگر اس راہ میں کوئی خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے ، ان کو خطاب کرتے ہوئے سخت سرزنش کی گئی ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ یہ آخر کیسا ایمان ہے کہ راحت، مسرت ، عیش نصیب ہو تو خدا تمہارا خدا اور تم اس کے بندے۔ مگر جہاں خدا کی راہ میں مصیبت آئی اور سختیاں جھیلنی پڑیں ، پھر نہ خدا تمہارا خدا رہا اور نہ تم اس کے بندے رہے۔ حالانکہ تم اپنی اس روش سے کسی ایسی مصیبت اور نقصان اور تکلیف کو نہیں ٹال سکتے جو خدا نے تمہارے نصیب میں لکھ دی ہو۔
اہل ایمان سے خاکب دو طریقوں پر کیا گیا ہے۔ ایک خطاب ایسا ہے جس میں وہ خود بھی مخاطب ہیں اور عرب کی رائے عام بھی۔ اور دوسرے خطاب میں صرف اہل ایمان مخاطب ہیں۔
پہلے خطاب میں مشرکین مکہ کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے ، حالانکہ مسجد حرام ان کی ذاتی جائداد نہیں ہے اور وہ کسی کو حج سے روکنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ اعتراض نہ صرف یہ کہ بجائے خود حق بجانب تھا، بلکہ سیاسی حیثیت سے یہ قریش کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بھی تھا۔ اس سے عرب کے تمام دوسرے قبائل کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا گیا کہ قریش حرم کے مجاور ہیں یا مالک ؟ اگر آج اپنی ذاتی دشمنی کی بنا پر وہ ایک گروہ کو حج سے روک دیتے ہیں اور اس کو برداشت کر لیا جاتا ہے تو کیا بعید ہے کہ کل جس سے بھی ان کے تعلقات خراب ہوں اس کو وہ حدود حرم میں داخل ہونے سے روک دیں اور اس کا عمرہ و حج بند کر دیں۔ اس سلسلے میں مسجد حرام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا کے حکم سے اس کو تعمیر کیا تھا تو سب لوگوں کو حج کا اذن عام دیا تھا، اور وہاں اول روز سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق یکساں قرار دیے گئے تھے۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ گھر شرک کے لیے نہیں بلکہ خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر ہوا تھا۔ اب یہ کیا غضب ہے کہ وہاں ایک خدا کی بندگی تو ہو ممنوع اور بتوں کی پرستش کے لیے ہو پوری آزادی۔
دوسرے خطاب میں مسلمانوں کو قریش کے ظلم کا جواب طاقت سے دینے کی اجازت عطا کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں اقتدار حاصل ہو تو تمہاری روش کیا ہونی چاہیے اور اپنی حکومت میں تم کو کس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ مضمون سورہ کے وسط میں بھی ہے اور آخر میں بھی۔ آخر میں گروہ اہل ایمان کے لیے ’’ مسلم‘’‘ کے نام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ابراہیمؑ کے اصل جانشین تم لوگ ہو ، تمہیں اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے کہ دنیا میں شہادت علی الناس کے مقام پر کھڑے ہو، اب تمہیں اقامت صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ اور فعل الخیرات سے اپنی زندگی کو بہترین نمونے کی زندگی بنانا چاہیے۔ اس موقعہ پر سورہ بقرہ اور سورہ انفال کے دیباچوں پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔
مشرکین سے خطاب کی ابتدا مکے میں کی گئی اور مدینے میں اس کا سلسلہ پورا کیا گیا۔ اس خطاب میں ان کو پورے زور کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ تم نے ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے بے بنیاد جاہلانہ خا لات پر اصرار کیا، خدا کو چھوڑ کر ان معبودوں پر اعتماد کیا جن کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے ، اور خدا کے رسول کو جھٹلا دیا۔ اب تمہارا انجام وہی کچھ ہو کر رہے گا جو تم سے پہلے اس روش پر چلنے والوں کا ہو چکا ہے۔ نبی کو جھٹلا کر اور اپنی قوم کے صالح ترین عنصر کو نشانہ ستم بنا کر تم نے اپنی ہی کچھ بگاڑی۔ اس کے نتیجے میں خدا کا جو غضب تم پر نازل ہو گا اس سے تمہارے بناوٹی معبود تمہیں نہ بچا سکیں گے۔ اس تنبیہ و اِنذار کے ساتھ افہام و تفہیم کا پہلو بالکل خالی نہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ پوری سورۃ میں جگہ جگہ تذکیر اور نصیحت بھی ہے اور شرک کے خلاف اور توحید و آخرت کے حق میں مؤثر دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں۔
مذبذب مسلمان ، جو خدا کی بندگی قبول تو کر چکے تھے مگر اس راہ میں کوئی خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے ، ان کو خطاب کرتے ہوئے سخت سرزنش کی گئی ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ یہ آخر کیسا ایمان ہے کہ راحت، مسرت ، عیش نصیب ہو تو خدا تمہارا خدا اور تم اس کے بندے۔ مگر جہاں خدا کی راہ میں مصیبت آئی اور سختیاں جھیلنی پڑیں ، پھر نہ خدا تمہارا خدا رہا اور نہ تم اس کے بندے رہے۔ حالانکہ تم اپنی اس روش سے کسی ایسی مصیبت اور نقصان اور تکلیف کو نہیں ٹال سکتے جو خدا نے تمہارے نصیب میں لکھ دی ہو۔
اہل ایمان سے خاکب دو طریقوں پر کیا گیا ہے۔ ایک خطاب ایسا ہے جس میں وہ خود بھی مخاطب ہیں اور عرب کی رائے عام بھی۔ اور دوسرے خطاب میں صرف اہل ایمان مخاطب ہیں۔
پہلے خطاب میں مشرکین مکہ کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے ، حالانکہ مسجد حرام ان کی ذاتی جائداد نہیں ہے اور وہ کسی کو حج سے روکنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ اعتراض نہ صرف یہ کہ بجائے خود حق بجانب تھا، بلکہ سیاسی حیثیت سے یہ قریش کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بھی تھا۔ اس سے عرب کے تمام دوسرے قبائل کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا گیا کہ قریش حرم کے مجاور ہیں یا مالک ؟ اگر آج اپنی ذاتی دشمنی کی بنا پر وہ ایک گروہ کو حج سے روک دیتے ہیں اور اس کو برداشت کر لیا جاتا ہے تو کیا بعید ہے کہ کل جس سے بھی ان کے تعلقات خراب ہوں اس کو وہ حدود حرم میں داخل ہونے سے روک دیں اور اس کا عمرہ و حج بند کر دیں۔ اس سلسلے میں مسجد حرام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا کے حکم سے اس کو تعمیر کیا تھا تو سب لوگوں کو حج کا اذن عام دیا تھا، اور وہاں اول روز سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق یکساں قرار دیے گئے تھے۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ گھر شرک کے لیے نہیں بلکہ خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر ہوا تھا۔ اب یہ کیا غضب ہے کہ وہاں ایک خدا کی بندگی تو ہو ممنوع اور بتوں کی پرستش کے لیے ہو پوری آزادی۔
دوسرے خطاب میں مسلمانوں کو قریش کے ظلم کا جواب طاقت سے دینے کی اجازت عطا کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں اقتدار حاصل ہو تو تمہاری روش کیا ہونی چاہیے اور اپنی حکومت میں تم کو کس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ مضمون سورہ کے وسط میں بھی ہے اور آخر میں بھی۔ آخر میں گروہ اہل ایمان کے لیے ’’ مسلم‘’‘ کے نام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ابراہیمؑ کے اصل جانشین تم لوگ ہو ، تمہیں اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے کہ دنیا میں شہادت علی الناس کے مقام پر کھڑے ہو، اب تمہیں اقامت صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ اور فعل الخیرات سے اپنی زندگی کو بہترین نمونے کی زندگی بنانا چاہیے۔ اس موقعہ پر سورہ بقرہ اور سورہ انفال کے دیباچوں پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔
Sura With Tafsir and Translation
22:Sura Al-Hajj In English | |
File Size: | 743 kb |
File Type: |