Sura Nuh
Sura Nuh (Arabic: سورة نوح) (Noah) is the 71st sura of the Qur'an in 29th part of the Quran with 28 ayat. It is Meccan sura.
سورہ نوح (سورہ نوح پیغمبرنوح علیہ السلام کے نام پر ہے ) قرآن مجید کی 71 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 28 آیات ہیں۔ یہ 29 ویں پارہ میں ماجود مکی سورہ ہے
Name
"Nuh" (Arabic: نوح) is the name of this Surah as well as the title of its subject matter, for in it, from beginning to the end, the story of the Prophet Noah (ALLAH Peace On Him) has been related.
نام
نوح اس سورت کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں از اول تا آخر حضرت نوح علیہ السلام ہی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔
Period of Revelation
This also is one of the earliest Surahs to be revealed at Makkah, but the internal evidence of its subject matter shows that it was sent down in the period when opposition to the Holy Prophet's message of Islam by the disbelievers of Makkah had grown very strong and active.
زمانۂ نزول
یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، مگر اس کے مضمون کی داخلی شہادت اس امر کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت و تبلیغ کے مقابلہ میں کفار مکہ کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی۔
Theme and Subject
In this surah the story of the Prophet Noah (ALLAH Peace On Him) has not been related only for the sake of story telling, but its object is to warn the disbelievers of Makkah, so as to say:
"You, O people of Makkah, are adopting towards Muhammad (Peace Be Upon Him) the same attitude as the people of the Prophet Noah (ALLAH had adopted towards him; if you do not change this attitude, you too would meet with the same end."
This had not been said in so many words anywhere in the Surah, but in the background of the conditions under which this story was narrated to the people of Makkah, this subject itself became obvious.Verse No. 2-4 briefly explain how he began his mission and what he preached.Then after suffering hardships and troubles in the way of preaching his mission for ages the report that he made to his Lord has been given in Verse No. 5-20. In it he states how he had been trying to bring his people to the right path and how his people had stubbornly opposed him.
After this, the Prophet Noah's (ALLAH Peace On Him) final submission has been recorded in Verse No. 21-24, in which he prays to his Lord, saying:
"These people have rejected my invitation: they are blindly following their chiefs, who have devised a tremendous plot of deceit and cunning. Time now has come when these people should be deprived of every grace to accept guidance." (Summary)
This was not an expression of impatience by the Prophet Noah, but when after having preached his message under extremely trying circumstances for centuries be became utterly disappointed with his people, he formed the opinion that no chance whatever was left of their coming to the right path. His this opinion fully conformed to Allah's own decision. Thus, in the next verse (25), it has been said:
"The torment of Allah descended on those people because of their misdeeds." (Summary)
In the concluding verse, the Prophet Noah's (ALLAH Peace On Him) supplication that he made to his Lord, right at the time the torment descended, has been recorded. In it he prays for his own and for all the believers' forgiveness, and makes a submission to Allah to the effect:
"Do not leave any of the disbelievers alive on the earth, for they have become utterly devoid of every good: they will not beget any but disbelieving and wicked descendants."
While studying this Surah one should keep in view the details of the Prophet Noah's story which have been given in the Qur'an above. For this see Al-Araf: 59-64,Yunus: 71-73, Hud: 25-49, Al-Mu'minun: 23-31, Ash- Shua'ra: 105-122, Al-Ankabut: 14,15, As-Saaffat: 75-82, Al-Qamar: 9-16.
"You, O people of Makkah, are adopting towards Muhammad (Peace Be Upon Him) the same attitude as the people of the Prophet Noah (ALLAH had adopted towards him; if you do not change this attitude, you too would meet with the same end."
This had not been said in so many words anywhere in the Surah, but in the background of the conditions under which this story was narrated to the people of Makkah, this subject itself became obvious.Verse No. 2-4 briefly explain how he began his mission and what he preached.Then after suffering hardships and troubles in the way of preaching his mission for ages the report that he made to his Lord has been given in Verse No. 5-20. In it he states how he had been trying to bring his people to the right path and how his people had stubbornly opposed him.
After this, the Prophet Noah's (ALLAH Peace On Him) final submission has been recorded in Verse No. 21-24, in which he prays to his Lord, saying:
"These people have rejected my invitation: they are blindly following their chiefs, who have devised a tremendous plot of deceit and cunning. Time now has come when these people should be deprived of every grace to accept guidance." (Summary)
This was not an expression of impatience by the Prophet Noah, but when after having preached his message under extremely trying circumstances for centuries be became utterly disappointed with his people, he formed the opinion that no chance whatever was left of their coming to the right path. His this opinion fully conformed to Allah's own decision. Thus, in the next verse (25), it has been said:
"The torment of Allah descended on those people because of their misdeeds." (Summary)
In the concluding verse, the Prophet Noah's (ALLAH Peace On Him) supplication that he made to his Lord, right at the time the torment descended, has been recorded. In it he prays for his own and for all the believers' forgiveness, and makes a submission to Allah to the effect:
"Do not leave any of the disbelievers alive on the earth, for they have become utterly devoid of every good: they will not beget any but disbelieving and wicked descendants."
While studying this Surah one should keep in view the details of the Prophet Noah's story which have been given in the Qur'an above. For this see Al-Araf: 59-64,Yunus: 71-73, Hud: 25-49, Al-Mu'minun: 23-31, Ash- Shua'ra: 105-122, Al-Ankabut: 14,15, As-Saaffat: 75-82, Al-Qamar: 9-16.
موضوع اور مضمون
اس میں حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ محض قصہ گوئی کی خاطر بیان نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ وہی رویہ اختیار کر رہے ہو جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم نے اختیار کیا تھا، اور اس رویے سے اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں بھی وہی انجام دیکھنا پڑے گا جو ان لوگوں نے دیکھا۔ یہ بات پوری سورت میں کہیں صاف الفاظ میں نہیں کہی گئی لیکن جس موقع پر اور جن حالات میں یہ قصہ اہل مکہ کو سنایا گیا ہے اس پس منظر میں خود بخود یہ مضمون اس سے مترشح ہوتا ہے۔
پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو جب اللہ تعالٰی نے رسالت کے منصب پر مامور فرمایا تھا اس وقت کیا خدمت ان کے سپرد کی گئی تھی۔
آیت 2 – 4 میں مختصراً یہ بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز کس طرح کیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے کیا بات پیش کی۔ پھر مدتہائے دراز تک دعوت و تبلیغ کی زحمتیں اٹھانے کے بعد جو روداد حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور پیش کی وہ آیت 5 – 20 میں بیان کی گئی ہے۔ اس میں وہ عرض کرتے ہیں کہ کس کس طرح انہوں نے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی کوششیں کیں اور قوم نے ان کا مقابلہ کس ہٹ دھرمی سے کیا۔
اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی آخری گزارش آیات 21 – 24 میں درج کی گئی ہے جس میں وہ اپنے رب سے عرض کرتے ہیں کہ یہ قومی میری بات قطعی طور پر رد کر چکی ہے، اس نے اپنی نکیل اپنے رئیسوں کے ہاتھ میں دے دی ہے، اور انہوں نے بہت بڑا مکر کا جال پھیلا رکھا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ان لوگوں سے ہدایت کی توفیق سلب کر لی جائے۔ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی طرف سے کسی بے صبری کا مظاہرہ نہ تھا بلکہ صدیوں تک انتہائی صبر آزما حالات میں تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے بعد جب وہ اپنی قوم سے پوری طرح مایوس ہو گئے تو انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ اب اس قوم کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان باقی نہیں ہے۔ یہ رائے ٹھیک ٹھیک اللہ تعالٰی کے اپنے فیصلے کے مطابق تھی۔ چنانچہ اس کے متصلاً بعد آیت 25 میں ارشاد ہوا ہے کہ اس قوم کے پر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہوگیا۔
آخری آیات میں حضرت نوح علیہ السلام کی وہ دعا درج کی گئی ہے جو انہوں نے عین نزولِ عذاب کے وقت اپنے رب سے مانگی تھی۔ اس میں وہ اپنے لیے اور سب اہل ایمان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور اپنی قوم کے کافروں کے بارے میں اللہ تعالٰی سے عرض کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی کو زمین پر بسنے کے لیے جیتا نہ چھوڑا جائے، کیونکہ ان کے اندر اب کوئی خیر باقی نہیں رہی ہے، ان کی نسل سے جو بھی اٹھے گا کافر اور فاجر ہی اٹھے گا۔
اس سورت کا مطالعہ کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام کے قصے کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہئیں جو اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہو چکی ہیں۔ ملاحظہ ہو الاعراف آیات 59 تا 64، یونس آیات 71 تا 73، ہود آیات 25 تا 49، المومنون آیات 23 تا 31، الشعراء آیات 105 تا 122، العنکبوت آیات 14 – 15، الصافات آیات 75 تا 82، القمر آیات 9 تا 16
پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو جب اللہ تعالٰی نے رسالت کے منصب پر مامور فرمایا تھا اس وقت کیا خدمت ان کے سپرد کی گئی تھی۔
آیت 2 – 4 میں مختصراً یہ بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز کس طرح کیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے کیا بات پیش کی۔ پھر مدتہائے دراز تک دعوت و تبلیغ کی زحمتیں اٹھانے کے بعد جو روداد حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور پیش کی وہ آیت 5 – 20 میں بیان کی گئی ہے۔ اس میں وہ عرض کرتے ہیں کہ کس کس طرح انہوں نے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی کوششیں کیں اور قوم نے ان کا مقابلہ کس ہٹ دھرمی سے کیا۔
اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی آخری گزارش آیات 21 – 24 میں درج کی گئی ہے جس میں وہ اپنے رب سے عرض کرتے ہیں کہ یہ قومی میری بات قطعی طور پر رد کر چکی ہے، اس نے اپنی نکیل اپنے رئیسوں کے ہاتھ میں دے دی ہے، اور انہوں نے بہت بڑا مکر کا جال پھیلا رکھا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ان لوگوں سے ہدایت کی توفیق سلب کر لی جائے۔ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی طرف سے کسی بے صبری کا مظاہرہ نہ تھا بلکہ صدیوں تک انتہائی صبر آزما حالات میں تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے بعد جب وہ اپنی قوم سے پوری طرح مایوس ہو گئے تو انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ اب اس قوم کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان باقی نہیں ہے۔ یہ رائے ٹھیک ٹھیک اللہ تعالٰی کے اپنے فیصلے کے مطابق تھی۔ چنانچہ اس کے متصلاً بعد آیت 25 میں ارشاد ہوا ہے کہ اس قوم کے پر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہوگیا۔
آخری آیات میں حضرت نوح علیہ السلام کی وہ دعا درج کی گئی ہے جو انہوں نے عین نزولِ عذاب کے وقت اپنے رب سے مانگی تھی۔ اس میں وہ اپنے لیے اور سب اہل ایمان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور اپنی قوم کے کافروں کے بارے میں اللہ تعالٰی سے عرض کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی کو زمین پر بسنے کے لیے جیتا نہ چھوڑا جائے، کیونکہ ان کے اندر اب کوئی خیر باقی نہیں رہی ہے، ان کی نسل سے جو بھی اٹھے گا کافر اور فاجر ہی اٹھے گا۔
اس سورت کا مطالعہ کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام کے قصے کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہئیں جو اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہو چکی ہیں۔ ملاحظہ ہو الاعراف آیات 59 تا 64، یونس آیات 71 تا 73، ہود آیات 25 تا 49، المومنون آیات 23 تا 31، الشعراء آیات 105 تا 122، العنکبوت آیات 14 – 15، الصافات آیات 75 تا 82، القمر آیات 9 تا 16
Sura With Tafsir and Translation
71:Sura Nuh In Urdu | |
File Size: | 1298 kb |
File Type: |
71:Sura Nuh In English | |
File Size: | 221 kb |
File Type: |