Sura Hud
Introduction
Sura Hud [Arabic سورة هود,"Prophet Hud (Peace On Him)"] is the 11th chapter of the Qur'an in 11th and 12th part (Juz) of the Qur'an (From Ayats 1 to 5 in 11th part and from Ayats 6 to 123 in 12th part) with 123 Verses. It is a Makkan sura.
تعارف
سورہ ھود (حضرت ہود علیہ السلام کا نام ) قرآن مجید کی گیارہویں سورت جو آیات 1 تا 5 قرآن کے 11پارہ میں جبکہ 6 تا123قرآن کے 12 ویں پارے پر محیط ہے. یہ سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔اس میں 10 رکوع اور 123 آیات ہیں۔
Name
This Surah has been named after Prophet Hud (Peace On Him) whose story has been related in Verse No.50-60.
نام
آیت 50 تا 60 میں حضرت ہود علیہ السلام کے ذکر سے ماخوذ ہے
Period of Revelation
If we consider its theme deeply, we come to the conclusion that it was revealed during the same period as Surah Yunus and most probably followed it immediately.
زمانۂ نزول
اس سورے کے مضمون پر غور کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی دور میں نازل ہوئی ہو گی جس میں سورۂ یونس نازل ہوئی تھی۔ بعید نہیں کہ یہ اس کے ساتھ متصلًا ہی نازل ہو ئی ہو، کیونکہ موضوع ِ تقریر وہی ہے ، مگر تنبیہ کا انداز اس سے زیادہ سخت ہے۔
Subject
The Surah deals with the same subject as Surah Yunus, that is, invitation to the Message, admonition and warning, with this difference that the warning is sterner. This is also supported by a Tradition:
It is related that after its revelation, once Hadrat Abu Bakr (ALLAH Bless With Him) said to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him), "Of late I have been noticing that you are growing older and older. What is the cause of it?" The Holy Prophet replied, "Surah Hud and the like Surahs have made me old."
This shows that it was a very hard time for the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) and these stern warnings added greatly to his anxieties that were caused by the persecution from the Quraish, who were doing their worst to crush down the Message of Islam. For it was obvious to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) that the last limit of the respite given by ALLAH was approaching nearer and nearer and he was afraid lest the term of the respite should expire and his people be seized by the torment.
The invitation is this: Obey the Messenger of ALLAH; discard shirk, and worship ALLAH and ALLAH alone: establish the entire system of your life on the belief that you shall be called to account in the Hereafter.
The admonition is this: Remember that those people who put their faith in the outward appearance of this worldly life and rejected the Message of the Prophets met with dire consequences. Therefore you should consider it seriously whether you should follow the same way that history has proved to be the path to ruin.
The warning is this: You should not be deluded by the delay in the coming of the punishment: it is because of the respite that ALLAH has granted you by His grace so that you might mend your ways: if you do not make use of this opportunity, you shall be inflicted with an inevitable punishment that will destroy you all except the Believers.
Instead of addressing the people directly, the Quran has used the stories of the people of Noah, Hud, Salih, Lot, Shu'aib and Moses (Peace On All) to achieve the above mentioned objects. What is most prominent in their stories is that when ALLAH passes His judgment on the people, He does not spare anyone whatsoever, even if he be the nearest relative of the Prophet of the time. Only that one is rescued who had believed in the Prophet, and none else, not even his own son or wife. More than that: the Faith demands from each and every Believer that he should totally forget his relationships when that judgment comes and remember only the relationship of the Faith. For it is against the spirit of Islam to show any regard whatsoever for the relationships of blood and race. And the Muslims demonstrated these teachings practically in the Battle of Badr, four years after the revelation of this Surah.
It is related that after its revelation, once Hadrat Abu Bakr (ALLAH Bless With Him) said to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him), "Of late I have been noticing that you are growing older and older. What is the cause of it?" The Holy Prophet replied, "Surah Hud and the like Surahs have made me old."
This shows that it was a very hard time for the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) and these stern warnings added greatly to his anxieties that were caused by the persecution from the Quraish, who were doing their worst to crush down the Message of Islam. For it was obvious to the Holy Prophet (Peace Be Upon Him) that the last limit of the respite given by ALLAH was approaching nearer and nearer and he was afraid lest the term of the respite should expire and his people be seized by the torment.
The invitation is this: Obey the Messenger of ALLAH; discard shirk, and worship ALLAH and ALLAH alone: establish the entire system of your life on the belief that you shall be called to account in the Hereafter.
The admonition is this: Remember that those people who put their faith in the outward appearance of this worldly life and rejected the Message of the Prophets met with dire consequences. Therefore you should consider it seriously whether you should follow the same way that history has proved to be the path to ruin.
The warning is this: You should not be deluded by the delay in the coming of the punishment: it is because of the respite that ALLAH has granted you by His grace so that you might mend your ways: if you do not make use of this opportunity, you shall be inflicted with an inevitable punishment that will destroy you all except the Believers.
Instead of addressing the people directly, the Quran has used the stories of the people of Noah, Hud, Salih, Lot, Shu'aib and Moses (Peace On All) to achieve the above mentioned objects. What is most prominent in their stories is that when ALLAH passes His judgment on the people, He does not spare anyone whatsoever, even if he be the nearest relative of the Prophet of the time. Only that one is rescued who had believed in the Prophet, and none else, not even his own son or wife. More than that: the Faith demands from each and every Believer that he should totally forget his relationships when that judgment comes and remember only the relationship of the Faith. For it is against the spirit of Islam to show any regard whatsoever for the relationships of blood and race. And the Muslims demonstrated these teachings practically in the Battle of Badr, four years after the revelation of this Surah.
موضوع اور مباحث
حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا
میں دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بوڑھے ہوتے جارہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے“؟ جواب میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا شَیَّبتْنی ھُود و اَخواتہا ،” مجھ کو سورہ ہود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے“۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے وہ زمانہ کیسا سخت ہوگا جب کہ ایک طرف کفارِ قریش اپنے تمام ہتھیار وں سے اس دعوتِ حق کو کچل دینے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پے در پے تنبیہات نازل ہو رہی تھیں۔ ان حالات میں آپ کو ہر وقت یہ اندیشہ گھلائے دیتا ہو گا کہ کہیں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم نہ ہو جائے اور وہ آخری ساعت نہ آجائے جب کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب میں پکڑ لینے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ فی الواقع اس سُورے کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک سیلاب کا بند ٹوٹنے کو ہے اور اُس غافل آبادی کا ، جو اس سیلاب کی زد میں آنے والی ہے، آخری تنبیہ کی جا ری ہے۔ یعنی دعوت، فہمائش اور تنبیہ،لیکن فرق یہ ہے کہ سُورۂ یونس کی بہ نسبت یہاں دعوت مختصر ہے، فہمائش میں استدلال کم اور وعظ و نصیحت زیادہ ہے ، اور تنبیہ مفصل اور پر زور ہے۔
دعوت یہ ہے کہ پیغمبر کی بات مانو، شرک سے باز آجاؤ، سب کی بندگی چھوڑ کر اللہ کے بندے بنو اور اپنی دنیوی زندگی کا سارا نظام آخرت کی جواب دہی کے احساس پر قائم کرو۔
فہمائش یہ ہے کہ حیاتِ دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر کے جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت کو ٹھکرایا ہے وہ اس سے پہلے نہایت بُرا انجام دیکھ چکی ہیں، اب کیا ضرور ہے کہ تم بھی اسی راہ چلو جسے تاریخ کے مسلسل تجربات قطعی طور پر تباہی کی راہ ثابت کر چکے ہیں۔
تنبیہ یہ ہے کہ عذاب کے آنے میں جو تاخیر ہو رہی ہے یہ دراصل ایک مہلت ہے جو اللہ اپنے فضل سے تمہیں عطا کر رہا ہے ۔ اس مہلت کے اندر اگر تم نہ سنبھلے تو وہ عذاب آئے گا جو کسی کے ٹالے نہ ٹل سکے گا اور اہلِ ایمان کی مٹھی بھر جماعت کو چھوڑ کر تمہاری ساری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا۔اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے براہ راست خطاب کی بہ نسبت قوم نوح ، عاد ، ثمود ، قوم لوط، اصحاب مدین اور قوم فرعون کے قصوں سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ ان قصوں میں خاص طور پر جو بات نمایاں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا جب فیصلہ چُکانے پر آتا ہے تو پھر بالکل بے لاگ طریقہ سے چکاتا ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ ذرہ برابر رعایت نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا بیٹا اور کس کا عزیز ہے۔ رحمت صرف اس کے حصہ میں آتی ہے جو راہِ راست پر آگیا ہو، ورنہ خدا کے غضب سے نہ کسی پیغمبر کا بیٹا بچتا ہے اور نہ کسی پیغمبر کی بیوی۔ یہی نہیں بلکہ جب ایمان و کفر کا دو ٹوک فیصلہ ہو رہا ہو تو دین کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ خود مومن بھی باپ اور بیٹے اور شوہر اور بیوی کے رشتوں کو بھول جائے اور خدا کی شمشیر عدل کی طرح بالکل بے لاگ ہو کر ایک رشتۂ حق کے سوا ہر دوسرے رشتے کو کاٹ پھنیکے ایسے موقع پر خون اور نسب کی رشتہ داریوں کا ذرہ برابر لحاظ کر جانا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ یہی وہ تعلیم تھی جس کا پورا پورا مظاہرہ تین چار سال بعد مکّہ کے مہاجر مسلمانوں نے جنگ بدر میں کر کے دکھا دیا۔
میں دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بوڑھے ہوتے جارہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے“؟ جواب میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا شَیَّبتْنی ھُود و اَخواتہا ،” مجھ کو سورہ ہود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے“۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے وہ زمانہ کیسا سخت ہوگا جب کہ ایک طرف کفارِ قریش اپنے تمام ہتھیار وں سے اس دعوتِ حق کو کچل دینے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پے در پے تنبیہات نازل ہو رہی تھیں۔ ان حالات میں آپ کو ہر وقت یہ اندیشہ گھلائے دیتا ہو گا کہ کہیں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم نہ ہو جائے اور وہ آخری ساعت نہ آجائے جب کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب میں پکڑ لینے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ فی الواقع اس سُورے کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک سیلاب کا بند ٹوٹنے کو ہے اور اُس غافل آبادی کا ، جو اس سیلاب کی زد میں آنے والی ہے، آخری تنبیہ کی جا ری ہے۔ یعنی دعوت، فہمائش اور تنبیہ،لیکن فرق یہ ہے کہ سُورۂ یونس کی بہ نسبت یہاں دعوت مختصر ہے، فہمائش میں استدلال کم اور وعظ و نصیحت زیادہ ہے ، اور تنبیہ مفصل اور پر زور ہے۔
دعوت یہ ہے کہ پیغمبر کی بات مانو، شرک سے باز آجاؤ، سب کی بندگی چھوڑ کر اللہ کے بندے بنو اور اپنی دنیوی زندگی کا سارا نظام آخرت کی جواب دہی کے احساس پر قائم کرو۔
فہمائش یہ ہے کہ حیاتِ دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر کے جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت کو ٹھکرایا ہے وہ اس سے پہلے نہایت بُرا انجام دیکھ چکی ہیں، اب کیا ضرور ہے کہ تم بھی اسی راہ چلو جسے تاریخ کے مسلسل تجربات قطعی طور پر تباہی کی راہ ثابت کر چکے ہیں۔
تنبیہ یہ ہے کہ عذاب کے آنے میں جو تاخیر ہو رہی ہے یہ دراصل ایک مہلت ہے جو اللہ اپنے فضل سے تمہیں عطا کر رہا ہے ۔ اس مہلت کے اندر اگر تم نہ سنبھلے تو وہ عذاب آئے گا جو کسی کے ٹالے نہ ٹل سکے گا اور اہلِ ایمان کی مٹھی بھر جماعت کو چھوڑ کر تمہاری ساری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا۔اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے براہ راست خطاب کی بہ نسبت قوم نوح ، عاد ، ثمود ، قوم لوط، اصحاب مدین اور قوم فرعون کے قصوں سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ ان قصوں میں خاص طور پر جو بات نمایاں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا جب فیصلہ چُکانے پر آتا ہے تو پھر بالکل بے لاگ طریقہ سے چکاتا ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ ذرہ برابر رعایت نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا بیٹا اور کس کا عزیز ہے۔ رحمت صرف اس کے حصہ میں آتی ہے جو راہِ راست پر آگیا ہو، ورنہ خدا کے غضب سے نہ کسی پیغمبر کا بیٹا بچتا ہے اور نہ کسی پیغمبر کی بیوی۔ یہی نہیں بلکہ جب ایمان و کفر کا دو ٹوک فیصلہ ہو رہا ہو تو دین کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ خود مومن بھی باپ اور بیٹے اور شوہر اور بیوی کے رشتوں کو بھول جائے اور خدا کی شمشیر عدل کی طرح بالکل بے لاگ ہو کر ایک رشتۂ حق کے سوا ہر دوسرے رشتے کو کاٹ پھنیکے ایسے موقع پر خون اور نسب کی رشتہ داریوں کا ذرہ برابر لحاظ کر جانا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ یہی وہ تعلیم تھی جس کا پورا پورا مظاہرہ تین چار سال بعد مکّہ کے مہاجر مسلمانوں نے جنگ بدر میں کر کے دکھا دیا۔
Sura With Tafsir and Translation
11:Sura Hud In English | |
File Size: | 851 kb |
File Type: |